6نومبر1947ء تاریخ کشمیرکا ایک خونین باب ہے ۔اس دن جموں کے غدر کا جگر چیر دینے وال اایسا وحشت انگیز سانحہ پیش آیا کہ جس سے ضبط تحریرلانے پہ ہاتھ لرزیدہ ہے۔ 6نومبر کا جموں غدر میں جموی مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے باعث وہ ریاست جموںو کشمیر کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ قربانی پیش کرنے میں سر فہرست ہیں۔ 1947ء سے آج تک اسلامیان جموں کے خاک بسر کارواں نے اپنا غم نہیں بھلایا ظاہر ہے کیسے بھلا سکتے ہیں۔ جموں میں ایک نہیں کئی جلیاں والا باغ کا خون آشام سماں میں بچ جانے والے کل کی طرح آج بھی اپنے چار سو قاتلوں اور ستمگروں کو برچھیاں ، نیزے ، تلواریں ، بندوقیں اور بھالے لئے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔72برس گزرگئے لیکن آج بھی ریاست جموںوکشمیرکے صوبہ جموں میں 6 نومبر1947ء والی روح فرسا کہانی دھرانے کی نامراد اور ناکام کوششیںجاری ہیں۔ گزشتہ 75 برسوںپر محیط عرصے کے دوران اسلامیان جموں مشکلات اور مصائب کی چکی میں پسے جا رہے ہیں ۔تا ہم عزیمت اور حمیت اسلامی سے سر شار جموی مسلمان کی باد مخالف میں مسلسل پرواز کرتے ہوئے مشکل اور کٹھن حالات کے ساتھ نبرد آزما رہنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی مکمل تربیت ہو چکی ہے۔ 14اگست1947ء قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ریاست جموں وکشمیرکے خطہ جموں میں سنگ دل ہوائیں چل پڑیں،اس بادصرصرسے شاخوں پر تمام سبز پتوں پرزردی چھاگئی۔ ایک انہونی خوف طاری ہونے لگاجس سے فصیل انسانیت زمین بوس ہونے کایقین پختہ ہونے لگا۔ جموی مسلمانوں کاایک ہجوم جموں کے مرکزی چوک میں جمع ہے لیکن ہکاوبکا،کچھ سجھائی نہیں دے رہاکہ آخر ہم کریں کیا۔دوسری طرف گرگ گرسنہ کے نتھنوں میں لہو کی باس ہے۔ بلندیوں میں پرواز کرتے پرندوں کی آنکھیں مگر دیکھ رہی تھیں کہ جموی مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑاغدرہونے والاہے ۔ ہندوئوں نے اودھم مچائی رکھی تھی ۔ مسلمانوں کے کشتوں کے پشتے لگاتے جارہے تھے۔ ہر چوراہے میں ٹکٹکی پر باندھ کر جموں کی سرزمین کومسلمانوں کے لہو سے لالہ زار بناتے چلے جارہے تھے۔ مظلوم جموی مسلمانوں کی عظیم قربانیوں اور ان کی اولوالعزمی کو دیکھ کر زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے کہ جموی مسلمانوں کی عظمت کو سلام۔ 6 نومبر کے غدر میں اس صوبے کے پانچ مسلم علاقوں جموں ، کٹھوعہ ، اودھم پور اور ریاسی میں مسلم آبادی کو ختم کر دیا گیا ان کے گھر بار جلا دئیے گئے ،جو اس غدر میں زندہ بچے وہ آگ اور خون کے طوفان سے گزر کر پاکستان پہنچے۔ جموں میں عین اس وقت مسلمانوں پر غدر ہوا کہ جس وقت مشرقی پنجاب میں پٹیالہ ، نابھہ اور جنید میں مسلم آبادی بری طرح لٹ رہی تھی۔ اس وقت سردار ولبھ بھائی پٹیل بھارت کے وزیر داخلہ اور بلدیو سنگھ وزیر دفاع تھے۔ اس لئے دونوںسردار پٹیل اور بلدیو سنگھ اس جرم عظیم کے براہ راست ذمہ دار تھے۔ دونوں کا ارادہ تھا کہ جموں کی طرح وادی کشمیر میں بھی مسلمانوں کا صفایا کر دیا جائے لیکن خدا نے اپنی مہربانی وادی کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کا تشخص باقی رکھا۔ 2 نومبر1947ء کوسول لباس میں ملبوس بھارتی فوجیوں اورآرایس ایس کے بلوائیوں نے جموں کے تالاب کھٹیکاں میں عبد الحمید جونیئر انجینئر اورسردار اکرم خان کے مکان میں سہمے ہوئے پناہ گزین افراد پر وحشیانہ حملہ کیا اور گھرکے مکینوں کے بشمول پناہ گزین تمام مردوں کو تہہ و تیغ کیا اور خواتین اسلام کو اغوا کیا۔ مہاراجہ پٹیالہ سردار یدوندر سنگھ نے مزید فوجی کمک جموں کو روانہ کر دی جنہوں نے آرایس ایس کے ساتھ مل کرجموں کی معروف مسلمان بستیوں دلپتیاں ، کھٹیکاں ، تالاب ، مست گڑھ اور دیگر مسلم اکثریتی علاقوں پر حملے کر دئیے۔ 4 نومبر1947ء کو بھارتی وزیر داخلہ ہند سردار و لبھ بھائی پٹیل ، وزیر دفاع سردار بلد یو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ وارد جموں ہوئے اوریوں ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ جموی مسلمانوں کے قتل عام کا ناپاک منصوبہ تشکیل پایا۔ اس شرمناک منصوبے کے تحت ڈوگرہ حکومت نے اعلان کیا کہ پاکستان جانے کی خواہش مند مسلمان 5 نومبر1947 ء کو پولیس لائنز جموںمیں پہنچ جائیں۔چنانچہ پاکستان کی محبت میں جموں کے مسلمانوں کاایک ہجوم اپنے آباد اور پر رونق گھروں کو چھوڑ کر پولیس لائنز جموں آپہنچا، وہاں پر ٹرکوں اور لاریوں کا ایک قافلہ ترتیب دیدیا گیااور ان نہتے اور بھوکے ننگے ستم رسیدہ مسلمانوں کو36 ٹرکوں میں سوار کیا گیا۔ اس قافلے کو سیالکوٹ(براستہ آر ایس پورہ)لے جانے کے بجائے سانبہ لے جایا گیااور اسے لیپرہسپتال (Leper Hospital) کے قریب پہنچایا گیاجہاں بندوقوں ، تلواروں ، کلہاڑیوں، بھالوں اور برچھیوں سے لیس سول وردی میں ملبوس بھارتی فوجی اہلکاروں اور تربیت یافتہ ہندو دہشت گردآرایس ایس کے غنڈوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیا جسے زمین و آسمان چیخ اٹھے۔6 نومبر1947ء کو اس قافلے کی تمام خواتین اسلام جن میں زیادہ ترنوجوان بچیاں تھیں کواغواکیا گیا اوربے بس اورنہتے مسلمان مردوں کاقتل عا م کیاگیا اوربچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا ۔ اس قتل عام کیلئے سانبہ کے دور دراز علاقے کو محض اس لئے چن لیا کہ جموں میں باقی موجود رہنے والے مسلمانوں کو اس کی خبر نہ پہنچ پائے ۔ چار ہزار کے قریب اس قافلے میں شامل لوگوں میں سے صرف نو سو افراد پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس قافلے میں ریاست کی مایہ ناز ہستیوںکو شہید کیا گیا۔ پروفیسر ملک فضل حق ، پروفیسر محمد عمر ، بابو فضل الدین ، پروفیسر شیخ عبد الرشید ، قاضی قمر الدین ، مستری فیروز الدین، پروفیسر قمر الدین ، سردار سلیم خان ، سردار اکرم خان، راجہ محبت خان جیسے جموی اکابرین اس قافلے میں تھے ۔ہندوڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پشت پناہی سول لباس میں ملبوس بھارتی فوج راشٹریہ سیوک سنگھ(RSS )کررہی تھی۔