10جنوری کی صبح 72پی ایم اے لانگ کورس والوں کے گروپ میں لیفٹینٹ کرنل بشیر الدین اورکزئی نے سی ایم ایچ پشاور میںآکسیجن ماسک چڑھائے ا پنی تصویر پوسٹ کی ۔ تصویر کے نیچے پشتو میں لکھا تھا’آخر ہم بھی تختے پر لیٹ گیا‘۔منہ پر چڑھے ماسک کے کونوں سے’بشیرا‘ کی مخصوص مسکراہٹ چھن چھن چھلک رہی تھی۔ 19جنوری کو جنرل طیب اعظم (جنہیں آئی جی ایف سی ، کے پی کے تعینات ہونے پر بشیرالدین نے کال کر کے کہا تھا 72 لانگ کورس کا جھنڈا بلند رکھنا)نے ساتھیوں کو اطلاع دی کہ بشیرالدین ،آکسیجن سپورٹ سے وینٹیلٹر پر چلا گیا ہے۔کرنل ریاض زیب نے کہ اب عسکری VI پشاور میں ہی رہائش پذیرہے،اطلاع دی کہ بھابھی صاحبہ دل کی مریضہ، شدید ذہنی دبائو کا شکار اوراب خود ہسپتال میں داخل ہیں۔بشیر کے دونوں بیٹے ملک سے باہر، جبکہ چھوٹی زرغونہ قرنطینہ میں ہے۔جنرل ندیم رضا (چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی) براہِ راست سی ایم ایچ پشاور کی انتظامیہ سے رابطے میں آگئے۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے کورس میٹس میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔ وینٹیلیٹر پر مشینوں ، آلات اور ٹیوبوں میں گھرا ہوا مسافر مگر سب سے بے نیاز، دنیا کی سرحد کے پاس پہنچ چکا تھا۔ موت سے قبل جسم کن مراحل سے گزرتا ہے، میڈیکل سائینس اس باب میں اب خاطر خواہ آگہی فراہم کرتی ہے۔ حیاتیاتی سائنس کے مطابق طبیعاتی موت سے قبل اور اس کے فوراً بعد جسمانی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ مختلف اعضاء اور حواس خمسہ یکے بعد دیگرے ایک طے شدہ ترتیب کے تحت معدوم ہونا شروع ہوتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ حواسِ خمسہ میںسے سننے کی صلاحیت (Hearing sense) سب سے آخر میں فنا ہوتی ہے۔ اسی بنا پر سمجھا جاتا ہے کہ موت کی تاریک وادی میں اترتا ہوا جسم دیگر حسیات کھو دینے کے باوجود تادیرتک ارد گرد کی آواز وں کو سن سکتا ہے۔قرآن میں موت کو نیند سے مشابہت دی گئی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جسدِ خاکی چھوڑنے کے بعد روح تادیر اس کے اوپر پھڑ پھڑاتی رہتی ہے ۔ کب تک اسی حالت میں رہتی ہے، بتانا ممکن نہیں۔جسم کی موت کے وقت انسانی روح کن مراحل سے گزرتی ہے ، یہ بتانا بھی ممکن نہیںکہ’ دنیا کے اس پار‘تاریک وادی میں اُتر کر کوئی آج تک یہ کہانی سنانے کے لئے واپس نہیں آیا۔ تاہم کچھ ایسے خوش قسمت افرادبھی ہیں جو اس پار اترنے سے کچھ پہلے واپس لوٹ آئے۔ کسی سرجری ،حادثے یا بیماری کی صورت میںجو طویل بے ہوشی کی حالت سے گزرتے ہیں۔ جنوری2016ء میں لاس اینجلس کے جوناتھن کوچ کو شدید عضلاتی بیماری کی حالت میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہسپتال لایا گیا- شدید جسمانی تکلیف سے نجات کیلئے مریض کو دائمی بے ہوشی (Coma) پر ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ڈھائی ہفتے کی بے ہوشی کے دوران جوناتھن جن کیفیات سے گزرا، ہوش میں آنے کے بعد وہ ان کو دہرانے کے قابل تھا۔چنانچہ اس نے بتایا کہ طویل بے ہوشی اور مصنوعی تنفس(ventilator) پر رہنے اور وقت کے طویل سیاہ وقفے کے دوران، خلاء میں تیرنے کے طلسمی احساس کے ساتھ ماضی کے بھولے بسرے واقعات اور مانوس چہرے ایک فلم کی مانند اس کی نظروں کے سامنے سے گزرتے چلے جاتے تھے۔ ارد گرد مانوس آوازیں کبھی سرگوشیوں تو کبھی یکا یک بلند ہونے والے شور میں بدل جاتیں۔کئی روز خوابیدگی کی سی کیفیت میں گزارنے کے بعد ایک دن کمرے میں چکا چوند روشنی پھیلتی چلی گئی اور جو ناتھن روشنی میں داخل ہو جاتا ہے۔ ہوش میں آنے کے بعدوہ خود کو طبّی عملے اور اپنے عزیزوں کے اندر گھرا ہوا پاتا ہے۔ہمارے ہاں مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس موضوع پر مشہور طبی ماہرین کے مشاہدات اور ہمارے مذہبی عقائد کی روشنی میں ’دنیا کے اُس پار‘ نامی ایک مختصر کتابچہ لکھا ہے۔ ڈاکٹر مودی کی 1975ء میں چھپنے والی ’لائف آفٹر لائف‘ میں ڈیڑھ سو ایسے افراد کے انٹرویوزشامل ہیں جو کسی نا کسی وجہ سے موت کو قریب سے چھو کر واپس لوٹے۔ اس کتاب کے مصنف اور مفتی صاحب نے چند نکات متعین کئے ہیں کہ جو مختلف افراد کے انفرادی تجربات مختلف نوعیت کے ہونے کے باوجود ہر ایک داستان میں یکساں طور پر پائے گئے۔ایسے تمام افراد جو موت کو چھو کر لوٹے، انہوں نے بتایا کہ بے ہوشی کے عرصے میں اپنے جسم سے علیحدہ ہو کر بے وزنی کی حالت میں وہ ایک پراسرار ماحول میں ایک ایسی سرحد پر کھڑے رہے تھے کہ جس کے’ اُس پار‘ انہیں اپنے بچھڑے ہوئے عزیز و اقرباء نظر آ رہے تھے۔ کئی ایک نے بتایا کہ وہ اپنے بچپن میں لوٹ گئے تھے ، جبکہ کئی ایک کے لئے گزشتہ زندگی کے اہم واقعات فلم کی طرح ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتے رہے۔ بہت سوں پر طویل بے ہوشی کے دوران ایک طویل ، گہری اور تاریک سرنگ میں اترنے کا احساس طاری رہا۔ دس روز پہلے بشیر اورکزئی نے اپنے کورس میٹوں کو تختے پر لیٹنے کی اطلاع دی تھی تو گروپ میں یہ اس کا آخری پیغام تھا۔19 جنوری کے بعد تین دن وہ دنیا کی سرحد پر کھڑا رہا۔ مجھے یقین ہے اپنے ان آخری تین دنوں میں بشیر الدین اپنے گائوں ضرور گیا ہو گا ۔اپنی پلٹن میں بھی کچھ وقت گزارا ہوگا۔ پی ایم اے روڈ سے بھی تو ضرور گزرا ہو گا ۔اکیڈمی کی فٹ بال ٹیم کے لیفٹ ونگر کو سر سبز گرائونڈ میں وہ نوجوان ساتھی ضرورملے ہوں گے ، جو گزرتے سالوں اس کے ساتھ بوڑھے ہو تے رہے ہیں۔ کیفے ٹیریا والی عقبی سڑک سے بھی ضرور گزرا ہوگاکہ جہاں ایبٹ آباد کے سخت جاڑے میں کھلے آسمان کے نیچے ’گورکھا‘ بنے ہوئے وہ کمال مہارت سے اپنی نیکر کی جیب سے یوںنسوار نکالتا کہ سر پر کھڑے سارجنٹ کو کا نوں کان خبر نہ ہوتی۔بھابھی کے ساتھ گزرے گرم و سرد موسم، تاجدار، تاب دار اور زرگونہ کی پیدائش کے دن بھی تو یاد آئے ہوں گے۔خدا کا شکر کہ تاجدار بشیر جرمنی سے بروقت پشاور پہنچ گیا ۔بیٹے کی آواز کان میں پڑی ہو گی تو جی سنبھل گیا ہو گا۔ جمعرات کی صبح ہمارے ’بشیرا‘ نے مگر تین دن دنیا کی سرحد پر کھڑا رہنے کے بعد اُس پار اترنے کا فیصلہ کر لیا کہ جہاں اس کے کچھ پیارے اس کے منتظر ہوں گے۔اللہ سے امید ہے کہ بشیر الدین ضرور کہیں مسرور اور شادمان ہی ہو گا۔ دوپہر تک جنرل ہمایوں عزیز(کراچی کے سابق کور کمانڈر)، صدیق ، صفدر، رضوان، ظہیر اور جمیل ، 72 پی ایم اے لانگ کورس کے ’ٹیپو ٹائیگر‘ کو مٹّی میں اتارنے کے لئے پشاور پہنچ گئے۔ پشاور میں موجود بہت سارے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ریاض زیب پہلے سے موجود تھا کہ سب معاملات کو وہی دیکھ رہا تھا۔ جمعرات کی شب ہفتہ وار کالم لکھنے کوحسبِ معمول بہت سے موضوعات دماغ میں کلبلاتے تھے ۔ رات گئے میز پر بیٹھا تو دماغ خالی تھا۔بے دلی سے مفتی تقی عثمانی صاحب کے کتابچے کو ڈھونڈااور دنیا کے اس پار جھانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ آخری تجزئیے کے مطابق یہ زندگی بھی ایک طویل ،گہری اور تاریک سرنگ ہی تو ہے ۔ واپس مڑنا تو درکنار، دو گھڑی رک کر سستا نا بھی ممکن نہیں۔ سفر ہے کہ جسے ہر صورت طے کرتے ہی چلے جانا ہے۔ ایک نا ایک دن خاکی جسموں کو چھوڑ کر دنیا کے اُس پار تو سبھی نے اُترنا ہے۔