موسم کی شدت کے ساتھ، ملکی سیاست کی حدت اور گرمی میں بھی بتدریج اضافہ ہورہا ہے،ایک دوسرے کو زندان میں پھینکنے اور کھینچنے کی خواہشات زور پکڑ رہی ہیں۔شورش کا شمیری جس کی زندگی کا ایک طویل حصہ، انگریز صعوبتوں اور تحریک آزادی کے علمبردار کے طور پر، قیدوبند کی سختیوں میں گزری، نے کہا تھا کہ: جیل صرف اس وقت تک جیل ہے،جب تک آدمی قید نہ ہو،جب ایک دفعہ جیل سے ہو آئے تو پھر قید کا خوف باقی نہیں رہتا۔بلکہ ہمارے ہاں تو معروف بھی یہی ہے کہ جب تک سیاسی کارکن یا دینی طالبعلم جیل نہ کاٹے نہ سیاسی لیڈر بنتا اور نہ مذھبی قائد،یہ کوئی آج کی بات بھی نہیں،شورش کاشمیری نے تقریباپون صدی قبل کہا تھا کہ: ہم نے اْس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں سرفروشی کے لیے دارو رسن قائم تھے خان زادوں کے لیے مفت کی جاگریں تھیں تابہ افق ہوک کا سناٹہ تھا رات کو قید میں خورشید کی تنویریں تھیں بیگناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں خونِ احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیر تھیں شورش نے کہا تھا کہ:جیل ایک ایسی جگہ ہے، جس کے بارے میں بہت کم سوچا گیا بلکہ سوچا ہی نہیں گیا۔ انگریزوں نے جیل خانے نہیں بوچڑ خانے بنائے تھے یا قصاص خانے ’’اصلاح کے عنوان سے ‘‘بہت کچھ کہا گیا،لیکن اصلاح مقصود ہی رہی۔ جیل خانوں کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ یہاں شریف۔۔۔۔عیبی،عیبی مجرم اور مجرم عادی ہوجاتا ہے، جیل خانے اصلاح کرنے،عبر ت دلانے یا سبق سکھانے کے لیے نہیں بلکہ عملاً جرائم کے تربیت خانے معلوم ہوتے ہیں۔جن لوگوں کو پولیس آوارہ گردی کے الزام میں پکڑتی ہے یا جو لوگ جرائم کی پاداش میں قید ہوتے ہیں وہ ایک تربیت یا فتہ مجرم کی حیثیت سے رہا ہوتے ہیں،پھر انکے دل سے جیل کا خوف ہمیشہ کیلئے نکل جاتا ہے اور وہ جرم کرنے ہی میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ اس نے مزید لکھا کہ:قید بظاہرسنگ و خشت میں مقید رہنے کا نام نہیں،انسان اپنے دن ہر طرح کاٹ لیتا ہے۔قید نام ہے انسان کی اپنی مرضی کے ٹوٹنے اور پرائی مرضی کے چلنے کا۔انسان نہ اپنی مرضی سے مسکرائے نہ اپنی مرضی سے سوئے،نہ جاگے نہ کھائے،نہ پیئے نہ پھرے نہ اْٹھے نہ بیٹھے نہ بولے یہ ہے قید،اور اِسی کا نام قید ہے جس اندھے انسان نے جیل مینوئل بنایا تھا،اس نے صرف انتقام و سزا کو سامنے رکھا اور کچھ سوچا ہی نہیں،نہ وہ انسان کی داخلی سرشت سے واقف تھا جو عام لوگوں میں مشترک اور اٹل ہوتی ہے نہ وہ قید یوں کی اصلاح کا خواہاں تھا۔کوئی عادت انسانی فطرت بن جاتی ہے تو وہ ٹالی یا بدلی نہیں جاسکتی بہت کم لوگ اس کے بدلنے یا ٹالنے پر قادر ہوتے ہیں۔ جیل کے حکام و احکام ہی اتفاقی قیدیوں کو عادی قیدی اور عادی قیدیوں کو ظالم قیدی بنادیتے ہیں۔ ایک زمانے میں جیل خانے جرائم کا ٹریننگ سکول تھے۔کیونکہ سزا کا مقصد اصلاح نہیں انتقام تھا۔شورش مرحوم نے اپنے جیل کے ایام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: پھر وہی کْنج قفس ، پھر وہی صیاد کاگھر…’’ہمیں ساتھیوں میں رکھنے کی بجائے سیاست خانہ میں رکھا گیا۔ یہ جیل کا بدترین حصہ تھا، تین بلاک تھے اور تینوں میں چکیاں ہی چکیاں تھیں،ان چکیوں میں آمنے سامنے کوٹھریاں تھیں،مگر اس طرح کہ ایک چکی کا قیدی دوسری چکی کے قیدی کو نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ ان کی آواز سْن سکتا تھا۔یہ قید تنہائی یا مار پٹائی کیلیے مخصوص تھیں۔ہم سب کو ایک ہی بلاک میں رکھا گیا۔کھانا یہاں بھی نہ ملا کیونکہ جیل میں نووارد قیدی یا حوالاتی کی روٹی تیار نہیں ہوتی ،راشن گزشتہ دن کی گنتی کے مطابق دیا جاتا ہے۔کوئی بھوکا تقاضا کرے تو آدھی رات کو دوروٹیاں بھیج دی جاتی ہیں۔اس وقت کوئی سبزی یا دال تیار نہیں ہوتی،قیدی پانی سے زہر مار کر لیتا ہے عید فاقے سے کٹ گئی۔کوئی ایک بجے شب ہمیں دو روٹیاں ملیں۔ہم بڑی خوشی سے کھاگئے،پانی کا ایک ایک گھونٹ اور روٹی کا ایک ایک لقمہ کیا مزادے رہے تھے؟سیاست خانہ کی دیوار کیبائیں بازو پر حوالات کا احاطہ تھا۔جہاں چھولداریاں لگا کر مولانا مظہر علی اظہر اور ان کے ساتھی رضاکاروں کو رکھا گیا تھا،ان رضا کاروں میں ہر روز چار کا اضافہ ہورہا تھا،ہمارا پتہ چلا تو انہوں نے جیل خانے کی ساری فضا کو نعروں سے گونجادیا،ہم نے بھی گنتی کْھلتے ہی نعرے بلند کرنا شروع کئے۔جیلر نے پہلے مولانا کو بلایا،پھر مجھے آخر ہمیں اکٹھا کرنے پر راضی ہوگئے اور کوئی دو گھنٹے بعد ہم اکٹھے ہوئے،مولانا مظہر علی اظہر اے کلاس ترک کر کے سی کلاس میں رہ رہے تھے۔ اظہر امر تسری ایڈیٹر’’ زمیندار‘‘جو اس وقت اتحاد ِملت کے جنرل سیکرٹری تھے اور احرار رضا کاروں نے انہیں اغوا کر کے ایک جتھے کے ساتھ بھجوادیا تھا وہ ان سے الگ بی کلاس میں تھے،میں نے فوراً ہی انہیں راضی کیا اور سی کلاس میں لے آیا: ’’ہمہ یاراں دوزخ ہمہ یاراں بہشت‘‘ ہمارے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلایا گیا۔کئی دن تک کچہری میں رونق رہی۔استغاثہ نے بیان کیا کہ ہم سردار سکندر حیات وزیر اعظم کی کوٹھی پر ہلہ بولنے کے لیے جارہے تھے، میں نے تردید کی اور کہا وہ پبلک کے منتخب کردہ وزیر اعظم ہیں،ہم انہیں اپنا نمائندہ سمجھ کر عید کی مبارک باد دینے جارہے تھے۔میں نے یہ بھی کہا کہ سردار صاحب نے مجھے بلایا تھا،مجسٹریٹ نے فیصلہ میں لکھا کہ ملزم اور وزیر اعظم میں حیثیت و مرتبہ کا بڑا فرق ہے لہٰذامیں تسلیم نہیں کرتا کہ انہوں نے ملزم کو بلایا ہو۔ میرے ساتھ رضا کاروں کو دو دو ماہ قید سخت اور مجھے چار ماہ قید سخت کا حکم سنایا گیا ہم نے سز ا سن کر نعروں سے کچہری کا احاطہ گونجادیا اتنا شورمچاکہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔سردار بھاگ سنگھ پی ڈی ایس پی غراتا ہوا نکلا،انگریزوں کا پشتینی وفادار تھا بڑا جھلّایا رضاکاروں نے مذاق اڑایا،خفیف سا ھوگیا۔وہ ایک اور مقام لکھتے ہیں کہ : سیاسی تحریکوں میں عام ساتھیوں کی روزمرہ آمدورفت سے قیدخانہ کی فضا ہی بدل جاتی ھے،جیل ھوسٹل سا نظرآتاھے، کئی دفعہ ایک تفریحی ٹرین کالطف آنے لگتا اورقید خانہ عیش خانہ ھو جاتا ہے ،پندرہ دن تک ایک میلہ سا لگا رہا، مولانا مظہر علی اظہر سارا دن چھولداری میں پڑے رہتے، وہ قرآن مجید حفظ کر رہے تھے اظہر امرتسری، صوفی عنایت محمد پسروری، قاضی احسان احمد اور میں ایک ہی ٹینٹ میں تھے۔ دن کا بیشتر حصہ مجلس آرائی میں کٹ جاتا۔ آخر یہ مجلس اْجڑنے لگی اور اْجڑ ہی گئی۔ایک شام چیف وارڈر بیڑیوں کا ایک انبار لے کر آگیا کہ ڈیڑھ سو رضا کارمیانوالی چالان کئے جارہے ہیں۔لہٰذابیڑیاں لگوالی جائیں۔ پوچھا چالان کب ہے؟ جواب ملا…کل سالار نے کہا تو کل بیڑیاں لگوالی جائیں گی،رات ہم بے آرامی سے نہیں کاٹنا چاہتے اسسٹنٹ جیلر نے اصرار کیا جھگڑا ہوگیا،جیلر آیا تو تکارہوئی،بات نہ بنی،آخر مولانا مظہر علی اظہر چھولداری سے نکلے جیلر سے مخاطب ہو کر پوچھا! ’’بخشی صاحب!چالان کب ہے؟‘‘ اس کے منہ سے نکل گیا…آج مولانا جانتے تھے کہ اس نے غلط کہا ہے غصّہ میں کہا ’’بخشی صاحب اگر چالان آج ہے تو کسی کو بیریاں لگوانے میں عذر نہیں اور اگر کل ہے اور آپ آج بیڑیاں لگوارہے ہیں تو پھر آپ انہیں کبھی لے جا نہ سکیں گے۔یہاں گولی چلے گی لاشوں کا ڈھیر لگے گا اور یاد رکھیئے ان رضا کاروں پر اْس وقت گولی چلے گی جب مظہر علی کا سینہ گولی کھاچکا ہوگا۔ جیلر یہ کلمات سْنتے ہی بھاگ گیا۔بیڑیاں لگانے والے نمبردار بھی چیف وارڈر کے ساتھ کھسک گئے۔اگلے روز کوئی ڈیڑہ سو رضاکار مولانا مظہر علی اظہر سمیت میانوالی جیل بھجوادیئے گئے۔