انگریزی اخبارات میں خواتین ایڈیٹرز کی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کاملہ حیات نامور ایڈیٹر رہی ہیں۔ اس وقت بھی نیوز ان سنڈے کی ایڈیٹر فرح ضیاء ہیں۔ عائشہ ہارون مرحومہ بھی جب امریکہ میں بلڈ کینسر سے زندگی کی جنگ ہاریں تو وہ ایک انگریزی اخبار کی ایڈیٹر تھیں۔ اردو صحافت میں خالدہ یوسف بھی ایسی دبنگ ایڈیٹر رہی ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کی پرفیکشنزم کی عادت سے گھبراتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنا ہی اعزاز سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف ڈینور کے پروفیسر شان ٹی شیفر پاکستانی صحافت کے اس روشن پہلو کو سن کر زیادہ خوش نہیں ہوئے بلکہ حیران پریشان سے ہو جاتے ہیں۔ بے یقینی میں گندھی ہوئی حیرانی سے ہمیں بار بار واسطہ پڑتا رہا۔ عام امریکیوں کا پاکستان کے بارے میں تاثر احمقانہ سا ہے۔ میں اسے تعصبانہ نہیں ہوں گی اس لئے کہ عام امریکی شہری کو دنیا بھر کے حالات و واقعات کو جاننے سمجھنے اور بین الاقوامی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اسے صرف اپنے شہر یا زیادہ سے زیادہ اپنی سٹیٹ کی خبروں میں دلچسپی ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں نیشنل لیول پر سیاست کی کیا سرگرمیاں ہیں امریکیوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ٹرمپ کو جتنا پاکستانی موضوع گفتگو بنائے رکھتے ہیں کوئی عام امریکی شاید ہی ٹرمپ کا تذکرہ ایسے کرتا ہو۔ اس کی وجہ شاید یہ ہی ہو کہ ایک عام امریکی اپنے ملک کا صدر چننے میں براہ راست حصہ نہیں لیتا۔ بات ہو رہی تھی امریکیوں کے پاکستان کے بارے میں منفی اور کہیں کہیں احمقانہ تاثر کے جواب میں ہم جب بھی حقیقت پر مبنی صورت حال کا تذکرہ کرتے تو جواباً ایک حیرانی سے واسطہ پڑتا۔ ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں سکستھ فلور پر میوزیم امریکیوں کے محبوب جان ایف کینیڈی کے حوالے سے ایک شاندار میوزیم ہے۔ ڈیلس میں کینیڈی کے یادگار میوزیم کی ایک وجہ یہ ہے کہ 1963ء میں کینیڈی کو ڈیلس میں ہی قتل کیا گیا تھا۔22نومبر 1963ء کو ہونے والے اس سانحے کی یاد میں ڈیلس ہی میں جان ایف کینیڈی میوزیم بنایا گیا۔ جہاں آنے والے ہر وزیٹر کو ہیڈ فون اور ایک موبائل فون کے طرز ایک آلہ پکڑایا جاتا ہے جس کی سکرین پر تصویریں بدلتی ہیں اور سامنے دیواروں پر لگے ہوئے کینیڈی کی تصاویر اور یادگار اشیاء کے ترتیب وار نمبر بھی سکرین پر چلتے ہیں۔ جس تصویر کو آپ چنتے ہیں اس کے بارے میں تفصیلی معلومات آپ کو ہیڈ فون کے ذریعے سے سنائی دیتی ہیں۔ جان ایف کینیڈی میوزیم میں میری ملاقات سکول کے طالب علموں کے ایک گروپ سے ہوئی جو اپنی ٹیچر کے ساتھ اس میوزیم میں آئے تھے یہ بچے تیرہ چودہ سال کی عمروں کے تھے۔ ان کی ٹیچر ایک مسکراتے چہرے والی خوبصورت خاتون تھیں ان سے تعارف ہوا تو انہوں نے سکول کی بچیوں سے کہا یہ ٹورسٹ پاکستان سے آئی ہیں تم لوگ پاکستان کے بارے میں کچھ جانتے ہو۔ ان میں سے ایک گھنگریالے بالوں والی بچی قدرے نخوت سے بولی۔ ''They are bad People Pakistan is a Country of Terrorists'' اس کی دوسری ہم جولیوں نے تائید میں سر ہلایا اور کہا کہ پاکستان خطرناک لوگوں کا ملک ہے۔ اب میرے لئے ان کا جواب حیرانی کا باعث نہیں تھا کیونکہ امریکی لوگوں سے ملتے ہوئے ہمیں دو ہفتے ہونے کو آئے تھے اور ہم اسی قسم کی باتیں سن رہے تھے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ کو پاکستان کے بارے میں یہ معلومات کہاں سے ملیں۔ ایک بچی جھٹ سے بولی’’فرام سوشل میڈیا‘‘ ان کی ٹیچر نے اتنی دیر میں اپنی کلاس کے باقی بچوں کو بھی بلا لیا اور کہا کہ یہ صحافی پاکستان سے ہیں۔ تم لوگ پاکستان کے بارے میں ان سے سوالات کر کے پاکستان کو جان سکتے ہو۔ بچے مجھ سے سوال کرتے رہے اور میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بخوشی ان کے جواب دیتی رہی۔ پھر ایک طالب علم جو گہرے سانولے رنگ کا امریکی تھا بولا۔ ٹیچر۔ پاکستان کے بارے میں ہمارا جو تصور تھا۔ یہ جرنلسٹ اس سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ بہت نائس ہیں اور میرا خیال ہے پاکستان کے بارے میں ہمیں صحیح معلومات نہیں تھیں۔ وہ مسکراتے چہرے والی ٹیچر اس وقت اتنی شاداں اور مطمئن دکھائی دے رہی تھیں جیسے کوئی بہت بڑی خوشخبری ان کے ہاتھ لگی ہو شاید ایک اچھا استاد ہمیشہ اپنے طالب علموں کو کچھ نیا سکھا کر ایسے ہی خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگیں کہ پاکستان کے بارے میں منفی باتیں زیادہ تر سوشل میڈیا سے بچوں کو معلوم ہوئیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج میرے بچے ایک پاکستانی سے مل کر پاکستان کو صحیح جان پائے۔یہ سن کر بطور پاکستانی میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ ڈیلس کے جان ایف کینیڈی میوزیم میں میں نے اپنے دل کواپنے وطن کی محبت سے سرشار محسوس کیا۔ اس لمحے کو یادگار بنانے کے لئے میں نے اپنے ہینڈ بیگ میں سے ایک چھوٹا سا گفٹ نکال کر اس مہربان ٹیچر کو پیش کیا۔ This is for you- with love from pakistan. اس کے خوب صورت چہرے پر ایک خوشگوار حیرت پھیل گئی۔ اس لمحے میرا جی چاہا کہ میرے پاس اتنے تحائف ہوتے کہ میں ان تمام بچوں کو ایک تحفہ دیتی اور ساتھ ہی یہ دعا بھی کہ خدا کرے ان کے شفاف دل کو ہر طرح کے تعصبات سے پاک ہو کر دنیا کو پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ ان لمحوں میں جب میرے ان امریکی طالب علموں کے درمیان تعصب اور دھند چھٹ چکی تھی ہم نے مسکراتے چہروں کے ساتھ اپنے اپنے موبائل فونوں میں ایک دوسرے کی تصویروں کو محفوظ کیا۔ میرے گروپ کے باقی افراد میوزیم کے وزٹ کے بعد نیچے داخلی دروازے پر واپس جا چکے تھے۔ میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو اپنے گروپ کا کوئی چہرہ دکھائی نہ دیا۔ شاید مجھے بچوں کے ساتھ باتوں میں کافی دیر ہو چکی تھی۔ میں نے انہیں گڈ بائے کہا اور واپسی کے لئے پلٹی۔ (جاری ہے)