رمضان المبارک میں مجھے" نورِ قرآن "لائیو ٹرانسمیشن کے سلسلے میں، روزانہ قرآن پاک سے تمسک اور اکتساب کی سعادت میسر آتی ہے ۔گزشتہ روز جب اہلِ مَدْیَن اور حضرت شعیب علیہ السلام کے واقعات کا مطالعہ سورۃ الا عراف کی روشنی میں جاری تھا ۔ جس کا کہ کچھ حصہ سورۃ القصص میں بھی منقول ہے ، کی آیت چھبیس میں فرمان ہے: "ان دو میں سے ایک خاتون نے کہااے میرے (محترم ) باپ اسے ملازم رکھ لیجئے۔ بیشک بہتر آدمی جس کو آپ ذمہ داری دیں، وہ ہے جو طاقتور بھی ہو اور دیانتددار بھی ۔(ترجمہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جب مصر میں ٹھہرنا ناممکن ہوگیا، تو آپؑ نے مدین کا رُخ کیا ، کیونکہ یہی ایک ایسا علاقہ تھا جو فرعون کی مملکت سے باہر، بھرپور آبادی کا حامل تھا ، اور وہاں کے باشندے حضرت ابراہیمؑ کے فرزند مَدْیَن کی اولاد تھے، یوں آپ ؑ مدین کی طرف روانہ ہوئے ، نہ سواری ، نہ زادِ راہ اور نہ ہی راستے کا سراغ، بس اللہ پر توکل ۔ طویل مسافت طے کر کے آپؑ تھکے ماندے، مدین کے باہر ، ان کے کنویں پر پہنچے، جہاں لوگوں کا ایک جھمگٹا تھا ، اور ہر ایک اپنے اپنے جانوروں اور مویشیوں کو پانی پلانے میں مصروف تھا ، دور ایک گوشے میں دو خواتین ، اس سارے مجمع سے الگ تھلگ کھڑی، اپنے ریوڑ کو روکے ہوئے تھیں تاکہ ان کی بھیڑ بکریاں اِدھر اُدھر منتشر نہ ہوجائیں ۔ آپ ؑ نے ان کو یوں چُپ چاپ کھڑے دیکھا تو پوچھا: آپ اس طرح کیوں کھڑی ہیں ، انہوں نے جواب دیا کہ ہم بھی اپنے ریوڑکو پانی پلانے کے لیے لائی ہیں، لیکن جب تک یہ چرواہے اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے نہیں جاتے ، ہمارے لیے اس بھیڑ میں گھس کر پانی پلانا ممکن نہیں ۔ آپ ؑ کی طبعی شرافت کو گوارا نہ ہوا کہ اتنے بڑے مجمع میں، دو عورتیں یونہی کھڑی ہیں ، چنانچہ آپ ؑ فوراً اُٹھے، ڈول لیا اور پانی نکال کر ان کے ریوڑ کو سیراب کردیا ۔ وہ اپنے ریوڑکو ہانک کر اپنے گھر کی طرف چل دیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہاں کوئی جان پہچان نہ تھی ، پاس ہی سایہ دار درخت تھا ، اس کے نیچے، ایک غریب الدیارکی طرح سستانے کے لیے بیٹھ گئے اور اس غریب الوطنی پر دل میں مختلف اندیشے اور خیالات بھی یقینا آئے ہونگے کہ اسی اثنا میں ان دو عورتوں میں سے ایک آئی ، اور اس نے کہا کہ ہمارے والد ، اس خدمت کا معاوضہ دینا چاہتے ہیں اور ساتھ گھر چلنے کی دعوت دی۔ یہ خاتون شرم و حیا کی چادر اوڑ ھے ، شرماتی اورلجاتی ہوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان لڑکیوں کے والد ، جو کہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے ، کے پاس تشریف لائے ، اپنی داستان بیان کی ، حضرت شعیب ؑنے ان کو تسلی دی کہ اب تم فکر مند نہ ہو ، تم ظالموں کی گرفت سے دور ہو ۔ یہاں تمہیں کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ دراصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی اجرت کی خاطر نہیںبلکہ ا س بزرگ ہستی کی زیارت کے لیے یہاں حاضر ہوئے تھے ، حضر ت شعیب ؑ نے کھانا پیش کیا تو آپ ؑ نے کھانا یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا کہ میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو اپنے نیک عمل کو کسی صورت میں بھی کسی کے آگے بیچنے کے لیے تیار نہ ہوتے ہیں ۔ حضر ت شعیب ؑ نے فرمایا دراصل یہ اُجرت نہیں بلکہ یہ آپ ؑ کی ضیافت ہے اور مہمانوں کی تواضع ہمارے آبائو اجداد کی سُنت ہے ۔ ان بچیوں کو ریوڑ چرانے ، ان کی حفاظت کرنے اور پھر ان کو پانی پلاتے وقت بڑی دقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، آپ ؑ نے ان کی جسمانی استعداد کا بھی اندازہ کرلیا کہ کس طرح انہوں نے اس قدر ہجوم میں بھی ، تھوڑے سے وقت میں سارے ریوڑ کو سیراب کردیا ۔ اور پھر وہ شرم و حیا کا پیکر بھی تھا کہ اس نے کسی اجنبی عورت کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنا بھی گوارانہ کیا ، حضرت شعیبؑ کی نرینہ اولاد نہ تھی، جو مذکورہ امور کی انجام دہی کو ممکن بناتی ۔ چنانچہ آپؑ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اس امر کے لیے انتخاب کیا اور ان کو اپنے ہاں مستقل ٹھہرانے کا ارادہ کیا اور کہا کہ اگر تم میرے پاس آٹھ دس سال رہو اور میرا دست و بازو بننا منظورکر لو ، تو میں تمہیں اپنی دامادی کا شرف بھی بخشوں گا اور اپنی ایک بیٹی کا نکا ح تمہارے ساتھ کردونگا۔ یوں تمہارا یہاں پر قیام آسان ہوجائے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی رضامندی کا اظہار کردیا اور یوں حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت شعیب علیہ السلام کے داماد بن کر ، ان کے ہاں مقیم ہوگئے ۔ آپ ؑ نے دس سال کی تکمیل پر اپنی اہلیہ کے ہمراہ مصر کا سفر اختیار کیا اور اسی سفر میں انہیں وادی طور سے وہ نعمتیں عطا ہوئیں جس کا اظہاربعد کے ادوارمیں ہوا۔ ایک دن حضرت عمر ؓ اپنے عہد ِ خلافت میں حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت عثمانؓ کے ساتھ بیت المال کے اونٹوں کا جائزہ لے رہے تھے ، حضرت عمر ؓ اونٹوں کو دیکھ دیکھ کر ، ان کے احوال و کوائف بولتے جارہے تھے اور حضرت علی ؓ سُن سُن کر حضر ت عثمان ؓکو اِملا کراتے جارہے تھے ، جو ایک درخت کے نیچے بیٹھے لکھ رہے تھے ۔ حضرت عمر ؓ دھوپ میں کھڑے تھے ، دھوپ انتہائی شدیدتھی ، لیکن وہ اپنے کام میں اتنے منہمک تھے کہ انہیں دھوپ کی شدت کا قطعاً احساس نہ ہو رہا تھا ، حضرت علی ؓ نے ، حضرت عثمانؓ کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ ؑ نے قرآن مجید میں حضرت شعیب ؑ کی بیٹی کا قول پڑھا ہوگا، جس نے کہا تھا:" بہترین خدمت گزار وہ ہے جو قوی بھی ہو اور دیانت دار بھی ہو " حضرت علی المرتضی ؓ نے حضرت عمر ؓ کی طرف اشارہ کر کے کہا :یہ ہے "اَلْقَوِ یُّ الْاَ مِیْن" اصل میں یہ سارا پیرایۂ اظہار ان دو الفاظ کے لیے تھا ، اسی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شخصیت سمیٹی جاسکتی ہے اور اسی میں حضر ت عمرؓ کی ۔ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ طاقتو ر نے نیکی ، اچھائی اور دیانت کے اپنے پیمانے بنا رکھے ہیں ۔ سوسائٹی میں جب تک صاحبِ اختیار امانت اور دیانت کا قائل نہیں ہوگا اس وقت تک اس کے اثرات نیچے تک نہیں جاسکتے ۔ عہد خلافت راشدہ اور بالخصوص حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں جب حکومت کی مشینری اس قدر فعال مستعد اور امین تھی تو اس کا سبب بھی یہ تھا کہ ریاست کا سب سے طاقتو ر شخص ، سب سے زیادہ امانتدار اور دیانتدار تھا ۔ مدائن کی فتح ہوئی ، دنیا کی سپر پاور ایران کو مغلوب کیا گیا ، تو اس قدر زرو جواہر اور مال و دولت کے ڈھیر مدینہ منورہ پہنچے کہ اہلِ مدینہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جو اس مہم کے کمانڈر تھے ، نے ساتھ رپورٹ ارسال کی اور تحریر کیا کہ اتنی خطیر مالیت کی دستیابی ، وجۂ تعجب و باعثِ مسرت نہیں بلکہ اصل حیران کن اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ آپؓ کے جن سپاہیوں نے یہ مال اکھٹا کیا ان کی کوئی نگرانی کرنے والا نہ تھا، لیکن کسی فوجی نے اس مالِ غنیمت میں سے ایک سوئی بھی پاس نہیں رکھی ۔ سارے کا سارا مال لاکر مرکز میں جمع کروایا ۔یہ پڑھ کر حضرت عمر ؓ کی آنکھوں سے آنسورواں ہوئے ، حضرت علی ؓ پاس کھڑے تھے انہوں نے فرمایا : ابنِ خطاب: تمہارے سپاہی اس لیے امین ہیں کہ تم امین ہو ۔