یہ نہیں کہ یہ سب راتوں رات ہواہے۔ یہ ہمارے پچھتر برسوں پر محیط اعمال کا نتیجہ ہے۔ گذشتہ تین عشرے مگر پاکستان پر بہت بھاری گزرے ہیں۔ آج ہم جن حالات سے دو چار ہیں، کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے؟ ہر گز نہیں۔ اللہ نے پاک سر زمین کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ سمندر ہے، صحرا ہے،دریا ہیں، آسمانوں کو چھوتے پہاڑ ہیں۔اناج سے بھرے کھیت کھلیان ہیں۔ چار موسم ہیں۔ محنت کش افراد ہیں۔ نوجوانوں کی ایک پوری فصل ہے۔پارلیمنٹ ہے۔انصاف کا سیکٹر ہے۔آزمودہ نظام حکومت ہے۔ ریاستی ادارے ہیں،جو ریاست کی رِٹ منوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک طاقتور فوج ہے ،جو سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتی ہے۔ صنعتیں ہیں۔سینکڑوں ہزاروںدولت مند خاندان ہیں۔ دولت مند خاندانوں نے ہی آزادی کے ابتدائی مہینوں میں ریاست کو وسائل فراہم کئے۔اب کیوں نہیں کرتے؟ ہمارا ملک اگرچہ بنانا ریپبلک یا ناکام ریاست تو ہر گز نہیں تاہم ڈسفنکشنل(Dysfunctional)گھرانوں کی طرح ایک ’ڈسفنکشنل ریاست‘ ضرور بن چکا ہے۔ ڈسفنکشنل گھرانوں میں افراتفری اور بے یقینی کا ماحول اور مارا ماری کا عالم برپا رہتا ہے۔ گھر کے افراد خود غرض مگر اکٹھے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جس کا مگر بس چلتا ہے اثاثے گھرسے باہر جوڑتا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لاحق پریشانیوں کے لئے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ چھوٹے بڑوںکا احترام نہیں کرتے اور بڑوں کا رویہ بڑوں جیسا نہیں ہوتا۔ گھرمیں کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا اور گھر میں کوئی ایسا فرد نہیں بچتا ،بیچ بچائو جو کر اسکے۔ جس پرسب بھروسہ کرسکیں۔خاندان کے افراد عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہیں۔ڈسفنکشنل ریاست کے اندر،بظاہر ہر کوئی آئین کی بالا دستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بات کرتا ہے۔ حقیقت میں مگرشخصی، گروہی اور ادارہ جاتی مفادات ہی بالادست دکھائی دیتے ہیں۔کسی فرد ، کسی عہدے ، کسی ادارے کی تکریم محفوظ نہیںرہتی۔ ایک ڈسفنکشنل خاندان کی طرح، وطنِ عزیز میں بھی مارا ماری کا عالم ہے اور بے یقینی کے اس ماحول میںکوئی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ادارے ، محکمے اور افراداپنا اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کے کام میں دخیل ہیں۔کہنے کو ملک میں آئین موجود ہے۔ وہی آئین کہ جس کے تحت ریاست کے امور چلانے کی خاطر ذمہ داریاں تین بڑے حصوں میںتقسیم ہیں۔ پہلا حصہ یا ستون مقننہ(انتظامیہ یا حکومت) کہلاتا ہے۔ہماری موجودہ حکومت اس وقت تاریخ کاغیر مقبول ترین انتظامی بندوبست ہے۔بدنام شخصیات پر مشتمل چوں چوں کا مربہ ہے۔پانچ ماہ کے اندر ملکی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔دوست ممالک تک بھی اب اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔زراعت، صنعتیں اورکاروبارٹھپ ہے۔ دنیا کے شاید ہی کسی ’جمہوری ‘ملک میں مگر ایسا ہو کہ حکمرانوں کے کاروبار ملک سے باہرہوں۔ گھر بار ملک سے باہر ہوں۔عدالتوں کو مطلوب افراد اُن میںرہائش پذیر ہوں۔ ملک کا وزیرِ اعظم اپنی کابینہ سمیت ملکی سلامتی سمیت اہم قومی معاملات پر احکامات لینے جہاں آئے روز پہنچتا ہو۔نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے وزیرِ اعظم جب اِن ملکوں کے ائیر پورٹوں پر اترتے ہیںتو کوئی انہیں گھاس بھی ڈالنے نہیں آتا۔ وطنِ عزیز کے سوا، دنیا کے شائد ہی کسی مہذب ملک میں یہ سوال اٹھتا ہوکہ پاکستان کے فیصلے پاکستان میں ہو رہے ہیں یا لندن میں؟آس پڑوس میں کسی اور ریاست کے اندر اس قدر ڈسفنکشنل حکومت کی موجودگی کم ازکم ہمارے علم میں تو نہیں۔اب راستہ کون نکالے؟پارلیمنٹ؟ریاست کا دوسرا بڑا ستون پارلیمنٹ ہے۔ہماری موجودہ پارلیمنٹ بھی مگر ہر لحاظ سے ڈسفنکشنل ہی دکھائی دے رہی ہے۔ چاروں صوبوں میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں اکثریت کے باوجود پارلیمنٹ سے باہر ہے۔ پارلیمنٹ میں بچی کچھی اقلیتی جماعتیں اس وقت ’حزبِ اقتدار‘ ہیں ،جبکہ اپوزیشن جو کسی بھی طرز کی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو اعتبار بخشتی ہے، موجودہ پارلیمنٹ میں کن ارکان پر مشتمل ہے، سب جانتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کا کردارمضحکہ خیز ہے۔حکومتی پارٹی کے ٹکٹ پر آئندہ انتخابات لڑنے کا اعلان دھڑلے سے کرتے ہیں۔قائمہ کمیٹیاں کہ جو کسی بھی پارلیمنٹ کی اساس ہوتی ہیں، اکثرغیر مئوثر ہیں۔ یا تو ان پر حکومتی ارکان اوریا پھر نا م نہاد’ اپوزیشن‘ کے افراد نامزد ہیں۔ حالیہ دنوں میں موجودہ پارلیمنٹ نے بظاہر حکمران خاندانوں اور ان سے وابستہ با اثر افراد کے مبینہ مفادات کی خاطر جو قانون سازی کی ہے اس کے نتیجے میں اُن کے خلاف کرپشن کے اربوں روپے کے مقدمات بیک جنبشِ قلم ختم ہو گئے ہیں۔ خود سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ میں ہونے والی حالیہ قانون سازی پر تاسف کا اظہار کیا ہے۔عدلیہ ریاست کا تیسرا اہم ستون ہے۔ ہماری عدلیہ کی عالمی درجہ بندی مایوس کن حد تک پست ہے۔ تاہم جیسے تیسے بھی انصاف کا ایک نظام بہرحال ہمارے ہاں موجود رہا ہے۔تمام تر کمیوں خامیوں کے باوجود کم ازکم اعلیٰ عدلیہ پر عوام کا اعتبارقائم رہا ہے۔اعلیٰ ترین وکلاء تنظیموں کے مخصوص عہدیداروں کی سیاسی وابستگیوں کی بناء پر اہم پیشہ ور تنظیمیں اپنا اعتبار کھو چکی ہیں۔اب ثالثی کون کرے؟ریاست کے تین بنیادی ستونوں کے علاوہ ہمارے ملک میں سلامتی کا ادارہ سسٹم میںتاریخی طور پر ایک بہت بڑا سٹیک ہولڈر رہا ہے۔ماضی کی تمام ترغلطیوں اوراکثر آئینی حدود سے تجاوز کئے جانے کے باوجود عوام کے دلوں میں ادارے کے احترام اور سرحدوں پر راتوں کو جاگنے والوں کیلئے محبت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ہر قومی بحران کے اندرعوام ادارے کی ہی جانب امید بھری نظروں سے دیکھتے رہے ہیں۔شہیدوں اور غازیوں کی وراثت کے امانت داروں کے وقار، عظمت اور احترام کے تحفظ کی آڑ میں غیر مقبول ترین حکومتی بندوبست مگر زباں بندی اور بدلے چکانے پر مُصرہے۔اب بات کون کرے؟اب بیچ بچائو کون کرے؟ قومی انتشار، سیاسی بے یقینی اورمعاشی تباہ حالی کے سیاہ سرد دَور سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ امانت، امانت گزاروں کو لوٹا دی جائے۔ کچھ اور نہیں،منصفانہ عام انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان ہی بحران کا واحد حل ہے۔