ابو نصر الفارابی دسویں صدی عیسوی کا معروف مسلم سکالر اور فلسفی تھا، جو 870ء میں وسط ایشیا کی ریاست ترکستان میں پیدا ہو ا، تحصیل ِعلم کے سلسلے میں طویل عرصہ بغداد میں مقیم رہا، پہلے ترک فلسفی اور عالم کے طور پر شہر ت حاصل کی۔ آبائی پیشہ سپہ گری تھا۔ باپ فوج کا سپہ سالار تھا۔ فارابی خاندانی پیشے کو ترک کرکے علوم و فنون میں مہارت کی طرف متوجہ ہوا اور اپنے عہد کے نامور اساتذہ اور علماء سے اکتسابِ فیض کیا۔ فلسفہ یونان کا خوگر اور منطق، ادبیات، نحو اور علوم عقیلہ کے ساتھ علوم طبیعات اور میڈیکل سے بھی گہر ا شغف اور لگاؤ کا حامل ہو ا۔ موسیقی کا بھی ماہر تھا، اور اْس نے ایک آلہء موسیقی بھی ایجاد کیا، جسے ابنِ خلکان نے قانون کا نام دیا۔ فارابی منصبِ قضاپر بھی فائزرہا، مگر علوم اور درس و تدریس سے گہری دلچسپی کے سبب، قضا کو زیادہ دیر تک نہ نبھا سکا۔ وہ سیاسی امور میں بھی دلچپسی رکھتا تھا،چنانچہ اس ضمن میں اْس کی بہت سی تصنیفات موجود ہیں۔فارابی کہتا تھا کہ ایک بہترین ریاست جسے وہ'' المدینتہ الفاضلہ'' کا نام دیتا ہے،وہ ریاست ہے جہاں سب لوگ باہمی اتحاد اور یگانگت کی دولت ایک مثالی ماحول قائم کیے ہوئے ہوں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے ہر معاملے میں عظمت و شوکت کے حصول کے لیے کوشاں ہوں اور یوں وہ زندگی کو حسین اور خوشگوار بنانے میں ممدومعاون ہوں، فارابی کا عقیدہ تھا کہ دنیا اور آخرت کی صحیح مسرت اور سعادت کے حصول کی خاطرچار نوع کے محاسن کا موجود ہونا ضروری ہے۔ا ور وہ ہیں۔ ۱۔فضائلِ نظریہ /۲۔فضائلِ فکر یہ /۳۔فضائلِ خلقیہ/۴۔صناعاتِ عملیہ اِن محاسن کو اپنا کر ایک قوم اس دنیا میں بھی کامرانی اور مسرت سے ممکنار ہوسکتی ہے اور آخرت میں بھی۔اْس کا خیال تھا کہ ہر ریاست میں ایک امیر کا ہونا ازبس ضروری ہے۔ البتہ ہر شخص حکمران یا امیر بننے کا اہل نہیں ہوتا، یہ ایک فطر ی بات ہے کہ جوشخص کسی شعبے میں راہنمائی کے قابل ہو،اْسے اْس شعبے کا سربراہ مقرر کر لیا جاتا ہے۔ اِس لحاظ سے پوری قوم کا سربراہ کسی ایسے شخص کو ہونا چاہیے، جو خود ہدایت یا فتہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ تمام شعبہ ہائے حیات میں راہنمائی کرنے کی صلاحیت اور قابلیت کا حامل ہو۔ فارابی کے نزدیک مثالی ریاست میں رہنے والوں کے مختلف طبقات اگرچہ مختلف علوم و فنون کی تحصیل و تکمیل میں مگن ہوتے ہیں اور اپنے اپنے دائرہ فکر و عمل میں رہتے ہوئے اپنے مخصوص روّیوں سے زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے پیہم کوشاں ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب کا اصل مقصد روحانی مسرت کا حصول ہے۔گو یا اْن کے محدود مقاصد ایک اعلیٰ ارفع اور عظیم تر مقصد کی جانب مختلف مراحل کا درجہ رکھتے ہیں۔ اْسی مقصد اور نصب العین کے حوالے سے تمام شعبہ ہائے حیات میں ایک ربط پید ا ہوجاتا ہے اور یوں قوم ایک رشتہ وحدت میں منسلک ہوجاتی ہے۔ ایک مقام ایسا بھی آتا ہے جہاں پہنچ کر لوگ مادی حوالوں سے یکسر بے نیاز ہوجاتے ہیں اور خالصتاً روحانی سطح پر زندگی گزارتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں اْن کے نقطہ نظر میں نمایا تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ روحانی انقلاب کی، اس مثالی منزل تک رسائی حاصل کرنا بہت کم لوگوں کے بس کی بات ہے اور اس کا صحیح نقشہ ذہنوں میں قائم کرنا دْشوار ہے۔ فارابی کے خیال میں ایک مثالی ریاست میں لوگوں کے پانچ طبقات ہوتے ہیں:۔ ۱۔اہل الرا ئے--- فلسفی، دانشور وغیرہ ۲۔اہل زبان--- ادیب، شاعر، خطیب، نغمہ گر وغیرہ ۳۔اہل علم--- ماہرین طبیعات، شماریات،فلکیات وغیرہ ۴۔اہل ہمّت--- سپاہی، محافظ، جنگجو وغیرہ ۶۔اہل خدمت--- کاشتکار، تاجر،کاریگر مزدْوروغیرہ فارابی کے ہاں امیرِ ریاست کی بارہ خصوصیات کا ذکر ملتا ہے، جو حسب ذیل ہیں: ۱۔صحت و تندروستی اور مختلف اعضائے جسمانی کی مستعدی--- جس کی مدد سے تمام اعلیٰ صلاحیتوں کو برْوئے عمل لایا جاسکے۔ ۲۔ذہانت اور دانشمندی--- جس کے باعث رعایا کی ضروریات اور خواہشات کا صحیح تناظر میں ادراک حاصل کیا جاسکے۔ ۳۔اچھی یادداشت --- جس کی بنا پر واقعات و تجربات ذہن میں محفوظ رہیں۔ ۴۔دْور اندیشی اور معاملہ فہمی--- تاکہ مختلف اْمور و مسائل کی تہ تک پہنچا جاسکے۔ ۵۔فصاحت و بلاغت--- تاکہ مانی الضمیر کو خْوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا جائے۔ ۶۔علم وفن سیلگلا ؤ--- جس کے باعث نئی نئی باتوں کے سیکھنے میں عار محسوس نہ ہو۔ ۷۔حرص و ہوس،لہو و لعب اور تعیشاتِ زندگی سے اجتناب--- تاکہ ارضی پیوستگی سے بالاتر ہو کر اعلیٰ نصب العین تک رسائی ممکن ہو۔ فارابی کی رائے تھی کہ اگر کسی معاشرے میں ایسا شخص موجود نہ ہو جو بیک وقت ان تمام خوبیوں کا حامل ہو، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ریاست کے وجود ہی کو ختم کردیا جائے۔ بلکہ ایسی صورت میں کسی ایسے فرد کو امیر مقرر کرلینا چاہیے جس میں اپنے پیش رومثالی امیر ریاست کے وضع کردہ قوانین وضوابط کی آگہی موجود ہو۔ اور اس میں کم ازکم اتنی اجتہادی بصیرت ہو کہ وقتی تقاضوں کے مطابق ان قوانین و ضوابط میں ترمیم و تنسیخ کر سکے۔ ان بنیادی اوصاف کے علاوہ اس میں ان صفات کا پایا جانا ضروری ہے جو سلطنت کے روز مرہّ امور کی انجام دہی کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔بہرحال حکمت و دانائی اوّلین و صف ہے جس کے بغیر حکمرانی کا تصوّر بھی ممکن نہیں۔ فارابی اس خیال کا حامی تھا کہ جس ریاست کا سربراہ مفکر مدبّر اور فلسفی نہ ہوگا اْس کا زوال وانحطاط یقینی ہے۔ فارابی اِس نظریے کا بھی قائل تھا کہ امیر ریاست کی متذکرہ صفات اگر کسی فرد واحد میں موجود نہ ہوں بلکہ دویا دو سے زیادہ افراد میں مل کر موجود ہوں تو اْن سب کو مجموعی طور پر امارت کی ذمہ داریاں سونپ دینی چاہئیں۔ بشرطیکہ وہ آپس میں اتحاد اور یگانگت کی فضا میں مل کر کام کرسکیں۔ فارابی کے نزدیک ایک مثالی ریاست کے حکمران کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رعایا کے تمام افراد کے آرام و آسائش کا خیال رکھے۔اگر وہ اس کا اہل نہ ہو تو اس ریاست کو مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسی ریاست اس کے اپنے الفاظ کے مطابق یا المدنیتہ الفاسقہ ہوگی یا المدنیتہ الجاہلہ یا المدینتہ الضالہ---اْس ریاست کے باشندگان کی حیثیت ان خود رو جھاڑیوں جیسی ہوگی جو بغیر کسی نگہداشت کے بڑھنے اور پھیلنے لگیں۔ اْن میں تنظیم اور تہذیب کا فقدان ہو گا---مادی خواہشوں کی تسکین زر و مال کے اکٹھا کرنے اور تعیشات میں منہمک ہونے کے سوا، اْن کے پیش نظر کوئی مقصدنہ ہوگا۔ عارضی خوشیوں، وقتی کامیابیوں اور سطحی تمناؤں کے طلسم میں گرفتار ہوکر وہ زندگی کی اعلیٰ اقدار سے محروم ہوجائیں گے۔ اْن کے ہاں اخلاقی ضوابط کی کوئی اہمیت نہ ہوگی۔ وہ ہر بات کو لذت کے معیار پر جانچیں گے۔ حقیقی مسّرت اور سعادت کا کوئی واضح تصوّر، اْن کے فکر و عمل کی راہنمائی کے لیے موجود نہ ہوگا۔