نائن الیون کے بعد افغانستان ایک مرتبہ پھر ایک تباہ کن ٹرننگ پوائنٹ پرپہنچتا ہوا نظرآتاہے اور بدقسمت افغانوں کی قسمت کو ایک بار پھر آزمانے کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔طالبان افغانستان میں ماضی کا خواب پورا کر نا چاہتے ہیں اور پوری آب وتاب کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں پر قابض ہورہے ہیں۔ان کے تازہ دعوے کے مطابق اب تک وہ افغانستان کے ڈیڑھ سو کے قریب اضلاع پر اپنا قبضہ جما چکے ہیں اور بہت جلد وہ تخت کابل پر اپناپرچم لہرا کر دم لیں گے۔ افغان حکومتی فورسزنے فی الوقت مزاحمت کی بجائے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور کہاجارہاہے کہ طالبان کو فری ہینڈ دے کر وہ ایک جنگی چال کھیل رہی ہیں۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ جب حکومتی فورسز بھی طالبان کے مقابلے میں میدان میں نکلیںگی تو خدا نہ کرے توکیا اس ملک میں ایک بارپھر تباہی اور خوں ریزی ہوگی۔ امریکہ بیس سال پہلے اپنے تمام تر مادی وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ افغانستان میں وارد ہواتھا۔نائن الیون حملوں کی آڑ میں اس نے طالبان کی حکومت راتوں رات رخصت کرکے ملک میں نام نہاد امن اور استحکام کیلئے ایک کمزور حکومت کو اقتدار سونپ دیا تھا۔اب بیس برس بیت جانے کے بعد امریکہ اس حال میں رخصت ہورہاہے کہ افغانستان میں امن نایاب اور بدامنی عروج پر پہنچ چکی ہے ۔امریکی منافقت کی انتہادیکھ لیجیے کہ بیس برس قبل افغان حکومت اس کی چہیتی جبکہ طالبان دہشت گرد اور خطے کے امن کیلئے ناسور قرار دیے جاتے تھے۔ پچھلے سال فروری کے مہینے میں قطرمیں طالبان سے معاہدہ کرکے امریکہ نے عملی طور پر یہ ثابت کردیا کہ طالبان کی افغانستان میں کیا اہمیت ہے بلکہ معاہدے کے تحت انہیں خطے میں دوسری دہشتگردتنظیموں کی سرکوبی کا ٹاسک بھی دے دیا۔اس معاہدے کے نتیجے میں امریکہ نے طالبان کے پانچ ہزار قیدی افغان حکومت کے جیلوں سے رہا کروائے اور اپنی افواج انخلا کا پر باقاعدہ عمل کاآغاز کیا جورواں سال گیارہ ستمبر تک مکمل کرلیا جائے گا۔ اس دوران امریکہ نے افغانستان کے مستقبل کے بارے میںہونے والے تاریخی معاہدے کے وقت اشرف غنی حکومت کی شرکت ضروری نہیں سمجھا۔دوحہ معاہدے کے تحت امریکہ اور طالبان کے درمیان سیز فائر تو ہوگا لیکن افغانستان کے ا ک اسٹیک ہولڈر (افغان حکومت ) کیلئے طالبان سے ایک ہفتے تک کا سیزفائر نہیں کروایا ۔بی بی سی کے ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اپنی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ میں نہ صرف بیس کھرب چارسوبیالیس ارب ڈالر کی خطیر رقم جھونک دی بلکہ اپنے تین ہزار کے لگ بھگ سپاہی ، چار ہزار کے قریب اپنے نجی سیکورٹی اہلکار مروادیئے اور اس سے کہیں زیادہ اس کے اتحادیوں کے اس جنگ میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ واقعی افغانستان میں امن لانے کا خواہاں ہے یا اس ملک کی قسمت سے مزید کھلواڑ کرنا چاہتاہے ؟سابق افغان صدر حامد کرزئی ایک طویل عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ یہ جنگ سرے سے افغانوں کا ہی نہیں بلکہ یہ امریکہ اور اس کے حلیف قوتوں کی جنگ ہے جس میں بدقسمت افغان قربان ہورہے ہیں۔کرزئی یہاں تک کہہ چکاہے کہ فتنے کی جڑ امریکہ ہی ہے اور اس کی موجودگی افغان وطن کو مزید تباہی کی طرف دھکیل رہاہے۔ طالبان جشن منارہے ہیں کہ امریکہ اپنی ہلاکت اور شرمناک پسپائی کیلئے آیا ہوا تھا اوروہی تباہی اور پسپائی ان کے (طالبان کے ) ہاتھوں بالآخر امریکہ کا مقدر ٹھہر گیا۔موجودہ صدر اشرف غنی کو امریکہ کی عیارانہ پالیسی پر شکوک ضرورہے۔ وہ اس کی عدم موجودگی کو افغانستان کی برباد ی کے مترادف قرار دیتے ہیں۔جہاں تک طالبان کے دعوے کا تعلق ہے تو ان کے اس دعوے کو امریکہ کی ظاہری شکست سے تو تعبیر کیاجاسکتاہے لیکن اس کو سنجیدگی سے لینا جنگ زدہ افغانستان کیلئے ایک نئے باب کی شروعات ہے۔امریکہ شکست ِ فاش دینا امرِ محال نہیں ہے لیکن اتناکمزور بھی نہیں،وہ سات سوپچاس ارب ڈالر سالانہ دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ امریکہ کی حالیہ رعایت سے فائدہ اٹھا کرطالبان شاید ماضی کی طرح ایک بار پھر ملک پر اپنا قبضہ جمالیں لیکن یہ پیش گوئی نہیں کی جا سکتی کہ ان کی حکومت پائیدار ہوگی اور خطے میں اس کو ہمسایہ ممالک کی حمایت حاصل ہوگی۔تب امریکہ نے طالبان پر القاعدہ کے رہنمائوں کی میزبانی کرنے کا الزام لگایاتھااور اس آڑ میں اپنا کھیل شروع کیاتھا، اب کی باراگر طالبان افغانستان پر قابض ہوگئے توامریکہ بوقت ضرورت افغانستان میں داعش جیسی تنظیموں کی فعالیت کے الزام کے بہانے طالبان حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔طالبان اگر حقیقت میں افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر کروانا چا ہتے ہیں تو انہیں کابل میں اپنی مخصوص طرز کی حکومت کی بجائے اپنے افغان کلمہ گو بھائیوں سے جامع مذاکرات کے راستے ایک جمہوری حکومت کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ طاقت کی بجائے انہیں عوامی مینڈیٹ کے ذریعے خود کو منوانا چاہیے ۔ یہی وقت حاضر کا اور تمام افغانوں اور خطے کے حالات کا تقاضا ہے۔