وہ درمیانی قدو قامت کا ایک عمر رسیدہ شخص تھا ۔اس نے ہاتھ کے اشارے سے لفٹ مانگی ،میں بھی سڑک پر دوڑتی فراٹے بھرتی گاڑی والوں کی طرح جلدی میں تھا اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کو تھابلکہ سچ یہ ہے میں آگے جا چکا تھا لیکن اس سے پہلے میری نظر اسکے چہرے پر پڑی وہ بڑی امید سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میری نظریں اسکی نظروں سے ملیں اور بے اختیار بریک پر دباؤ بڑھ گیا۔ میں رک گیا وہ مجھے رکا دیکھ کر جلدی جلدی قدم اٹھانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے میرے پاس آگیااور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ کہا ’’صاحب ! بڑی مہربانی ،بس مجھے بلیو ایریا میں خیبر پلازہ تک جانا ہے ‘‘ خیبر پلازہ میرے دفتر کے راستے ہی میںتھا میں نے اسے ساتھ بٹھا لیا وہ دعائیں دیتا ہوا بیٹھ گیا اور ممنونیت بھرے لہجے میں کہنے لگا میں گولڑہ سے پیدل آرہا ہوں۔ بہت تھک گیا تھا۔ آپ نے بڑی مہربانی کی اللہ آپ پر مہربان رہے ،اس نے مجھے اتنی دعائیں دیں کہ میں اسکا ممنون ہو گیا ۔میں نے کہا بابا جی ! گولڑہ تو بہت دور ہے آپ اتنی دور سے پیدل آرہے ہیں !‘‘ جواب میں اس نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا ’’صاحب ! تھک تو گیا ہوں لیکن کرائے کے چالیس پچاس روپے تو بچ گئے ۔۔۔مہنگائی بہت ہو گئی ہے گزارہ نہیں ہورہا ،پہلے ہی ہم غریبوں کی دیہاڑ کچھ نہ تھی اب تو سمجھیںکہ بیڑا ہی غرق ہو گیا ہے۔ اتنا کہہ کر وہ حکومت کو کوسنے لگے کہ ہم نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا کہ یہ نیاپاکستان بنائے گا جس میں ہم غریبوں کے لئے کچھ آسرا ہو گا لیکن توبہ توبہ ہمارا تو سانس لینا مشکل ہوگیا ہے ۔۔۔ ‘‘بابا جی ہونٹ بھینچ کرباہر دیکھنے لگے ۔تھوڑی دیر بعد ایک چمچماتی ہوئی کار سرکاری موبائل کے ساتھ زن کر کے پاس سے گزر گئی ،باباجی زیر لب بڑبڑاتے ہوئے پنجابی میں کہنے لگے ’’انہاں نو ں کی پتہ کہ مہنگائی دی مار کی ہوندی اے ‘‘(انہیں کیا خبر کہ مہنگائی کی مار کیا ہوتی ہے ) میں نے ان کی تائید کی اور کہا کہ آپ سچ کہتے ہو ان وزیروں اور بڑے افسروں کے لئے مہنگائی صرف اخباروںمیں ہے جس پر یہ ایک نظر ڈال کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ میری تائید پا کر باباجی نے تیزی سے کہا یہ آگے کیسے بڑھ جاتے ہیں اور کیوں بڑھ جاتے ہیں۔ یہ رکتے کیوں نہیں ؟ہم نے انہیںاس تیز رفتاری کے لئے تو ووٹ نہیں دیئے تھے صاحب ! جب یہ عمران خان جیتا تھا تو اس رات میں بڑے عرصے بعد سکون سے سویا تھا کہ اب اچھے دن آنے والے ہیں لیکن کیا معلوم تھا کہ جو روٹی کا لقمہ ہمارے ہاتھ میں ہے وہ بھی چھین لیا جائے گا۔اتنا ’’اوکھا‘‘ وقت میں نے پوری حیاتی میں کبھی نہیں دیکھا ۔ میں نے یونہی بابا جی سے کہہ دیا کہ بابا جی مہنگائی پوری دنیا میں ہے میری بات سن کر باباجی بولے ہمیں دنیا سے کیا لینا دینا ہم سے پاکستان کی بات کریں ریاست مدینہ کی بات کریں جی ۔۔۔آپ ماشاء اللہ پڑھے لکھے میں تو بس مڈل پاس ہوں لیکن جانتا ہوں کہ جب یار غار سوہنے صدیق اکبر ؓ کو خلافت ملی اور وہ صبح اٹھ کر بازار کی طرف جانے لگے تو سوہنے عمر فاروقؓ سے راستے میں ملاقات ہوگئی۔ پوچھا امیر المومنین کہاں چل دیئے ،سوہنے صدیقؓ نے کہا بازار جارہا ہوں کچھ تجارت تجورت کروں ،کپڑے شپڑے بیچوں کہ گھر کا چولہا جلے ،آپ جانتے ہوں گے سوہنے فاروقؓ نے کیا جواب دیا ۔کہاکہ آپ کاروبار کرو گے تو خلافت خلوفت کون دیکھے گا ،معاملہ آگے بڑھا ،طے پایا کہ سوہنا صدیق ؓ کاروبار نہیں کرے گا ان کی تنخواہ لگائی جائے اور وہ تنخواہ سوہنے یار غارؓ نے خود طے کی اور وہ تھی مدینے کے ایک مزدور کے برابر۔مجھے صرف عمران خان سے یہ پوچھنا ہے کہ انہیں چھوڑیں ان کے کتے کا خرچ بھی کیا ہم دیہاڑی داروں کے برابر ہے ؟مہنگائی ہے تو اس کا سارا بوجھ میری بوڑھی ہڈیوں پر کیوںہے مجھ جیسے ریٹائرڈ پنشنروں پر کیوں ہے ،سارا وزن چھوٹے ملازمین پر کیوں ہے ؟کیا یہ اپنی گاڑیاں چھوٹی نہیں کرسکتے ؟ چھوٹی گاڑی تھوڑا پٹرول لیتی ہے کچھ تو خرچا بچے گا ناں جی ،یہ بڑے بڑے گھروں میں کس دل سے رہتے ہیں ،یہ ہمارے جیسے کیوں نہیں ہوجاتے دکھاوے کے لئے ہی ہو جائیں۔ یہ کیسا نیا مدینہ ہے کہ میں بوڑھی ہڈیوںکے ساتھ سات کلومیٹر سے پیدل چلتا آرہا ہوں اور یہ افسر وزیر لاکھوں کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے پھر رہے ہیں ،کہتے ہیں جنازے میں رو نہیں سکتے تو رونے والوں جیسا منہ ہی بنا لو۔ان سے تو اتنا بھی نہیں ہوا۔۔۔بابا جی کی باتوں نے مجھے چپ لگا دی وہ دکھی دل سے کہہ رہے تھے اور میں سب سنے جارہا تھا،مجھے پتہ نہیں چلا کہ کب ان کی منزل آگئی وہ کہنے لگے بس صاحب ! اس سگنل پر مجھے اتار دیں ،اللہ آپ کو عزت دے ،آپکی پریشانیاں دور ہوں۔۔۔باباجی مجھے دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے لیکن نئی ریاست مدینہ کے والی کے لئے پیغام چھوڑگئے۔ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے اس سے نمٹ نہیں سکتے تو عوام سے یک جہتی کے لئے دکھاوے کے لئے ہی سہی لینڈ کروزر اور مرسڈیز سے چھوٹی گاڑی پر آجاؤ،سرکاری ادارے گواہی دے رہے ہیں کہ ملک میں اس قدر مہنگائی پہلے کبھی نہ تھی، معیشت کو سمجھنے والے کہہ رہے ہیں یہ کم ہے مہنگائی اور بڑھے گی حال یہ ہے کہ غربت افلاس سے پریشان لوگ اپنے بچوں کو زہر دے کرخودکشیاں کر رہے ہیں اور کپتان تو کیا ان کی بی، سی، ڈی ٹیم کے بارھویں ،تیرھویں اور چودھویں کھلاڑی دو دو کروڑ کی سرکار ی گاڑیوں میں فراٹے بھر رہے ہیں ،کپتان عوام کے ساتھ رو نہیں سکتا لیکن ان کا دکھ سمجھ کر رونے والوں جیسی صورت ہی بنا لے ۔۔۔!