چند دن پہلے ایک معروف تجزیہ نگار نے بڑے تاسف سے لکھا کہ اب کسی اہم واقعے پر حیرت نہیں ہوتی ۔ انہوں نے اسے قومی المیہ قرار دیتے ہوئے لکھا،’’ ہم لوگ اداس ہوتے ہیں، خوش ہوتے ہیں، لیکن حیران نہیں ہوتے ۔حیرت اضطراب اور جستجو کو جنم دیتی ہے، حیرت کھو جائے تو جستجو دم توڑ جاتی ہے اور جستجو کی موت بے حسی کا جنم ہے۔‘‘اس تجزیے کے پس منظر میں ایک واقعہ انہوں نے بیان کیا، جس میں ایک صاحب نے میاں نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلہ آنے اور میاں صاحب کے واپس جیل چلے جانے کی پیش گوئی کی، مگر اس انکشاف پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔حیرت کی موت والی تھیوری دلچسپ ہے ۔ایسا نکتہ جس پر بات ہوسکتی ہے، جس کا جائزہ لینا چاہیے۔ فیصلے کے چند گھنٹوں بعد وائس آف امریکہ سے وابستہ نوجوان صحافی ملک عمید نےVOA کے فیس بک لائیو کے لئے خاکسار کو مدعو کیا، سکائپ پر چند منٹ تک گفتگو ہوئی، پہلا سوال یہی تھا کہ احتساب عدالت کے اس فیصلے پر آپ کو حیرت ہوئی ؟ میرا جواب تھا ، بالکل نہیں، بلکہ مجھے تو حیرت ہوئی کہ میاں صاحب دوسرے ریفرنس سے کس طرح بری ہوئے؟یہ بات اس لئے نہیں کہی کہ ہم میاں نواز شریف کی سزا کی متمنی ہیں یا عدالتی فیصلوں کے بارے میں کوئی سن گن مل گئی تھی۔بات بڑی سادہ ہے کہ پانامہ کیس میں میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کا پورا کیس نہایت کمزور اور کسی بھی قسم کی اخلاقی مضبوطی سے عاری رہا۔ وجوہات اس کی کچھ بھی ہوسکتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے احباب اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ اتنے پرانے معاملات کی قانونی تفصیلات کیسے محفوظ رکھی جا سکتی ہیں، یہاںایک سال پرانے بجلی کے بل ڈھونڈنے پر نہیں ملتے، تیس سال پرانی منی ٹریل کہاں سے دی جاتی ؟یہ بات بالکل ہی بے وزن نہیں،تمام چیزیں سنبھالنا آسان نہیں۔ اس اخبار نویس کا لاہور میں قیام بائیس ، تیئس برسوں پر محیط ہے،چار پانچ مختلف کرائے کے مکانات میں رہنا پڑا۔ سال پہلے دفتر سے قریب رہنے کے لئے ایک اور کرائے کے مکان میں شفٹ ہوا ۔ کوئی ایک بھی کرایہ نامہ میرے کاغذات میں محفوظ نہیں، بجلی، گیس ، پانی کے پچھلے بل تک نہیں سنبھال سکا۔اگر کوئی لاہور میں قیام کی ٹریل مانگ لے تو نہیں دے سکوں گا۔ ویسے کاروباری حضرات کا معاملہ مختلف ہے، وہ اپنے کاغذات سنبھال کر رکھا کرتے ہیں کہ کبھی کوئی ایشو بن جائے تو دکھا سکیں۔ لیکن چلیں اس دلیل کو کچھ دیر کے لئے درست مان لیتے ہیں،مسئلہ مگر یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے یہ جواز پیش ہی نہیں کیا۔ اگر پانامہ سکینڈل کے آنے کے بعد یہی موقف اختیار کرتے کہ ہم نے لوٹ مار کے بجائے جائز پیسوں سے لندن کی جائیدادیں خریدیں، مگر پرانا معاملہ ہے، ہمارے پاس اب اس کی منی ٹریل موجود نہیں، وہ قانونی کاغذات ہمارے لئے دینا ممکن نہیں، ہماری بات پر اعتبار کریں ، بصورت دیگر چونکہ میری ذات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، میںصفائیاں پیش کرنے کے بجائے سائیڈ پر ہوجاتا ہوں۔ وہ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجاتے ۔اگر مستقل طور پرسیاست چھوڑنا ممکن نہیں تھا تو چند برسوں کے لئے ہی پیچھے ہٹ جاتے۔ نیا الیکشن کر ا کر نیا مینڈیٹ بھی لے سکتے تھے۔ مسلم لیگ ن کی سیاست جاری رہتی، میاں صاحب کی پسند کا (شاہد خاقان عباسی ٹائپ )کوئی وزیراعظم بن جاتا اور چونکہ میاں صاحب نے اعلیٰ اخلاقی مثال قائم کی ہوتی ، ان کی مقبولیت بڑھ جانی تھی۔ کچھ عرصے بعد حالات بدل جانے پر وہ پھر سے سیاست میں آ سکتے تھے۔ افسوس کہ میاں نواز شریف نے ایسا نہ کیا۔ ایسا کرنے کے لئے جس اخلاقی جرات، عزیمت اور تدبر کی ضرورت تھی ، شاہد وہ خوبیاں ان کے خمیر کا حصہ ہی نہیں ۔ میاں نواز شریف کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلوں پر کسی کے حیران نہ ہونے کی دو تین وجوہات ہیں۔ ایک تو وہی جو اوپر بیان کی کہ میاں نواز شریف کے پاس اگر منی ٹریل موجود نہیں تھی تو پھر انہیں جرات اور عزیمت کے ساتھ باوقار طریقے سے اپنا کیس پیش کرنا چاہیے تھا۔ جس طرح مختلف موقف پیش کر کے اور پھراحتساب عدالت میں اس سے جان چھڑا کر انہوں نے بھد اڑائی ، وہ دیکھنا افسوسناک تھا۔جس راستے پر وہ چلے، اس کے اختتام پر ناکامی، مایوسی اور شرمندگی ہی ان کامقدر بننی تھی، وہی ہوا۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پانامہ کیس میں شریف فیملی نے جو موقف اپنایا، اس پر ان کے کسی اندھے مقلد کے سوا کوئی یقین نہیں کر پایا۔انہوںنے جو قلابازیاں کھائیں، جس دیدہ دلیری سے اپنے بیانات بدلنے پڑے اور پھر قطری خط جیسی بچکانہ کہانی چلانی پڑی ، اس سے ان کے کیس کے پرخچے اڑ گئے۔ مجھے یاد ہے کہ انہی دنوں صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی ایک محفل میں ، جہاں ن لیگ کے کئی حامی بھی موجود تھے،یہ سوال اٹھایا کہ اس کمرے میں موجود کوئی شخص ایسا ہے جسے اس قطری خط والی کہانی پر یقین ہے؟ کسی ایک شخص نے بھی لب کشائی نہیں کی، چونکہ ہرکوئی جانتا تھا کہ یہ نظریہ ضرورت کے تحت کہانی گھڑی گئی ہے۔میاں صاحب نے ملک کے کئی نامور وکلا کی خدمات حاصل کی، انہوں نے مقدور بھر قانونی موشگوفیاں کیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ بات بنی نہیں۔احتساب عدالت میں نیب نے زیادہ کچھ نہیں کرنا تھا، اصل بار میاں صاحب پر تھا۔ انہیں ہی ہاتھ پائوں مارنے چاہیے تھے، مگر شائد ان کے لئے ایسا کرناممکن ہی نہیں تھا۔اس لئے جو فیصلے آ رہے ہیں، ان میں کسی کو کیا حیرت ہوسکتی ہے؟ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ کسی معاملے کا قانونی طور سے مضبوط، کمزور ہونا الگ معاملہ ہے اور اخلاقی اعتبار سے اس کی ہار جیت ایک الگ بات ہے۔ بہت بار عدالتوں میں مقدمات ہار جانے والوں کو اخلاقی فتح ملتی ہے۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قانونی اعتبار سے ثبوت نہ ہونے یا تکنیکی نکات کی بنا پر فیصلہ اس کے خلاف ہوگیا، مگر بندہ ٹھیک ہے اور یہ جرم اس نے نہیں کیا۔ اسی وجہ پر بعض جج صاحبان اعلانیہ کہتے رہے ہیںکہ عدالتوں میں انصاف نہیں بلکہ فیصلے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پانامہ ایشو پر میاں نواز شریف کے حصے میں صرف قانونی شکست نہیں آئی، اخلاقی بنیادوں پر وہ شروع ہی میں ہار گئے ۔ سپریم کورٹ کے پانامہ فیصلے میں جسٹس کھوسہ نے گاڈ فادر ناول کا فقرہ شروع میں نقل کیا۔ ن لیگ کے تھنک ٹینکس کو اس سے شدید تکلیف ہوئی اور انہوں نے اپنے پروپیگنڈہ کا خاصا حصہ اس پر صرف کیا کہ انہیں گاڈ فادر سے تشبیہہ کیوں دی گئی؟ یہ بات کئی دوستوں کو سمجھ نہیں آئی کہ آخر اس بات پر اتنا شور کیوں مچایا جا رہا ہے؟انہیں ماریا پوزو کا ناول گاڈ فادر پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اب تو اس کے تین چار اردو تراجم میسر ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹی وی پروڈیوسر دوست نے ناول پڑھنے کے بعد حیرت سے فون کیا ،’’گاڈ فادر کا کردار تو میاں صاحب کی شخصیت ، ان کے سٹائل اور نیٹ ورک پھیلانے کے انداز سے بڑا مشابہہ ہے۔ ‘‘بات درست ہے۔ شریف خاندان نے بالکل کسی سیاسی مافیا کے انداز میں کام کر کے ہر شعبے میں اپنے وفادار پیدا کئے اور جڑیں اتنی گہری بنا لیں کہ انہیں ہٹانا یا کاٹ پھینکنا ممکن نہ رہے۔ ہمارے بعض تجزیہ کار اسے سیاسی عصبیت کا نام دیتے ہیں۔ یہ صرف سیاسی عصبیت نہیں بلکہ دراصل ایک مضبوط نیٹ ورک تھا، جسے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے لئے بھی کاٹ پھینکنا ممکن نہ ہوا۔ پنجاب کے لوگ اور خاص طور پر لاہور کے رہنے والوں نے اس نیٹ ورک کی تشکیل اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ہماری صحافتی کمیونٹی میں ایسے بے شمار عینی شاہد موجود ہیں، جنہوں نے وہ تمام حربے اپنے سامنے دیکھے۔ کس طرح ہزاروں ملازمتیں بانٹی گئیں، پلاٹ دئیے گئے، لفافے بانٹے گئے ، اپنے پسندیدہ لوگوں کو مختلف اداروں ، شعبوں میں اوپر لایا گیا، ناپسندیدہ لوگوں کا اخراج یقینی بنا۔ مجھے یاد ہے کہ صحافت کے شروع کے دنوں میں جب شریف خاندان جلاوطن تھا،انہی دنوں ایک اخبار کے سب ایڈیٹر نے کوئی آرٹیکل لکھا اوربعض بہت سخت جملے میاں صاحب کے خلاف لکھ ڈالے۔ اس کے انچارج نے وہ سطریں اتنی سختی سے کاٹیں کہ کاغذ کی سلپ پھٹ گئی، نہایت برہمی سے اس نے پرجوش نوجوان کو کہا ،’’ تمہیں معلوم نہیں کہ یہ کون لو گ ہیں اور کیسے دل میں بات رکھتے ہیں، چند برسوں بعد انہوں نے آ ہی جانا ہے، پھر تمہارے ساتھ مجھے بھی اس کالم کی قیمت ادا کرنا پـڑے گی۔‘‘دائیں بائیں کئی گردنیں اس بات کی تائید میں ہل گئیں۔یہ سنی سنائی بات نہیں کی، بلکہ حقیقتا ایسے ہی ہوا۔ صاحبو! بات یہ ہے کہ میرے جیسے، آپ جیسے،ہمارے جیسے بے شمار لوگوں نے یہ سب کچھ دیکھا، جانا، سمجھا ہوا ہے۔ اب ایسے میں حیرت کیسے ہواور کیوں ہو؟جب معلوم ہے کہ کیا کیا ’’کارنامے ‘‘انجام دئیے گئے، یہ بھی جانتے ہیں کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کی سپورٹ سے یہ سب کچھ معاملات چلتے رہے، سٹے آرڈرز پر کئی سال تک صوبائی حکومت چلائی جاتی رہی۔ اب جب ادارے پشت پناہی نہیں کر رہے، سکینڈل کی دلدل میں گردن گردن پھنسے ہیں، قدرت کی عظیم الشان مشینری بھی اپنے شکنجے میں لے کر پیسنا چاہ رہی ہے… تب یہ سب ہونا ہی تھا۔ حیرت کیسی؟ معذرت خواہ ہیں، مگر ہمیں تو اب ان باتوں پر حیرت نہیں ہوتی۔