نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو یعنی نیب کے چیئرمین جسٹس (ر)جاوید اقبال سے منسوب اسکینڈل کے شوروغل سے اسلام آباد کے مقتدر اداروں کی چھتیں اڑ گئی ہیں۔ہر چند کہ بہت کچھ آچکا ہے۔مگر اسلام آباد کے سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیںکہ ’’ابھی بہت کچھ آنا باقی ہے‘‘۔ اس بات میں قطعی دورائے نہیں کہ ہرشخص کی اپنی ایک ذاتی زندگی ہوتی ہے۔کنوارا ہو کہ شادی شدہ۔بھلے قبر میں ہی پیر لٹکے ہوں۔لیکن سیاست بڑی سفاک ہوتی ہے۔مخالفین انتقام کی آگ میں بہت دور تک چلے جاتے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ آگ ان کے اپنے دامن تک بھی آسکتی ہے۔الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کو بڑی مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے۔مگر سوشل میڈیا کو تو جانے دیں۔وزیر اعظم کے معتبرِ خاص کے چینل والے کلپس تو اب واپس نہیں آسکتے ۔جو بھاری نقصان اور ملبہ نیب اور اس کے سربراہ پر گرنا تھا،اُس کی چیخیں تو آسمان کو چھو رہی ہیں مگر اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہفتہ ہونے کو آرہا ہے مگر اسکرینوں پہ آنے کے شوقین چیئر مین نیب کی زبان ابھی تک گنگ ہے۔چیئر مین نیب کا چُپ کا روزہ کب ٹوٹے گا ،اس پر بات آگے چل کر ہوگی۔مگر اس وقت تو زرداریوں ،شریفوںاور اِن کے آجو باجو کی خوشیاں دیدنی ہیں۔ بظاہر منافقت کے آنسو بہاتے ہوئے چیئر مین نیب سے ہمدردی کا اظہار ہو رہا ہے۔اور ساری سنگ باری بنی گالہ کے مکینوں پر ہی کی جارہی ہے۔چیئر مین نیب کو ٹریپ میں لینے والی خاتون کا شجرہ کھولنے سے اس لئے کوئی فائدہ نہیں کہ یہ Poor(لغوی معنوں میں) محض ایک کارندہ تھی ۔اصل بات یہ ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے اور اس کے beneficiariesکون ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کا اعتراف کرنے میں حرج نہیں کہ خود اس پروفیشن میں دہائیوں سے وابستگی کے سبب ایسی علتیں،عادتیں لگی ہیں کہ جن کے سبب ہرگز ہرگز خود کو فرشتوں کی صف میں شامل نہیں سمجھتا۔اور ایک خاص حلقے کے نقطہ نظر سے پکڑ میں بھی آتی ہیں۔مگر شاعرِبے مثا ل مصطفی زیدی کی زبان حدیث ہے کہ اصولاً گناہ گار نہ ہوں گناہ گارپہ پتھر سنبھالنے والے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر نظر رکھیں ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے اس بات کا احساس ہے کہ انتہائی حساس موضوع کے سبب قلم رواں نہیں ہو رہا۔مگر پاکستانی سیاست میں اس طرح کے سنسنی خیز اسکینڈل کوئی نئی بات نہیں۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے مقتدر اداروں سے وابستہ مقدس ہستیاں ہوں یا سیاست دان ،ججز حضرات ہوں یا ہمارے میڈیا کے کھڑپینچ ۔ ۔ ۔ دنوں ،ہفتوںمیں دودھ سے دھل کر اسی آب و تاب سے سیاسی میدان ہی میں نہیں،اسکرینوں پر بھی چمک رہے ہوتے ہیں۔یہ درست ہے کہ فیصلہ تاریخ ہی کرتی ہے۔پاکستانی سیاست کے سحر انگیز سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو ساری دنیا میں شہرت رکھتے تھے۔مگر اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے کبھی زیادہ فکر مند نہیں رہے۔ان کی زندگی رومانس اور انقلاب کا خوبصورت امتزاج تھی۔ اپنی مہ نوشی کا اظہار تو بھرے جلسوں میں اس فخر کے ساتھ کرتے کہ :’’ہاں پیتا ہوں،مگر عوام کا خون نہیں پیتا‘‘۔ 1970ء کے الیکشن میں ہمارے دائیں بازو کے دانشور صحافیوں نے ان کی ذاتی زندگی پر کیسے کیسے زہریلے حملے کئے ۔حتیٰ کہ اسلامی سربراہی کانفرنس کی بنیاد رکھنے والے کی مسلمانی ہی سوالیہ نشان بنا دی۔پنڈی جیل کے اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ نے اپنی یادداشتوں میںلکھا ہے کہ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد جنرل ضیاء الحق کے ایک خاص اہلکا ر نے بھٹو صاحب کی پوشیدہ جگہوں کی تصویریں کھینچ کر یہ تصدیق کرنی چاہی تھی کہ وہ مسلمان بھی ہیں یا نہیں۔مگر چار دہائی بعد آج بھی ان کے نام پر لاکھوں عوام ووٹ دیتے ہیں۔اور اب تو ان کے بدترین مخالفین بھی قائد اعظم کے بعد انہیں پاکستان کا دوسرا بڑا سیاست دان قرار دیتے ہیں۔My Feudal Lordہمارے چھوٹے شریف کی حالیہ بیگم تہمینہ درانی نے شیرِپنجاب غلام مصطفی کھر کے بارے میں دو دہائی قبل لکھی تھی۔کئی زبانوں میں ترجمہ ہوئی۔برسوں best sellerرہی۔محترمہ تہمینہ درانی ،جن کے والد یحییٰ خان کے دور میں پی آئی اے کے چیئر مین تھے۔اپنے اوپر کئے گئے مظالم اور مصائب کے ساتھ ساتھ ، جی ہاں،ہمارے جیسے معاشرے میں اس حد تک صاف گوئی میں آگے بڑھ گئیں کہ اپنی چھوٹی بہن کا ذکر کرتے ہوئے ایسا نقشہ کھینچتی ہیں کہ جسے کم از کم 92جیسے اخبارمیں شائع نہیں کیا جاسکتا ۔poorچھوٹی بہن کا تو پتہ نہیں کہاں ہوتی ہیں۔خود محترمہ تہمینہ درانی برسوں سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کی خاتون اول رہیں۔اور خود شیر ِپنجاب غلام مصطفی کھر اپنی اس ہی آن بان شان سے اب حکمران جماعت تحریک انصاف کی کورکمیٹی کے اجلاسوں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔اور دور کیوں جائیں۔ہمارے محترم وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں ان کی دوسری بیگم ریحام خان نے جو کتاب لکھی ہے ،جولائی 2018ء کے الیکشن سے پہلے خاص طور پر شائع کرائی گئی ۔اور پھر سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینل کے ایک نو آموز اینکر نے خاص لندن جا کر جو انٹرویو ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی صورت میں چلایا،اس سے ہمارے خان صاحب کا ککھ توکیا بگڑتا۔ ۔ ۔ الٹا انہیں شاندار انتخابی کامیابی حاصل ہوئی۔آج ریحام خان کی کتاب فٹ پاتھوں پر فروخت ہورہی ہے۔اورخود موصوفہ کس دیس بستی ہیں ،کم از کم میں تو باخبر نہیں ہوں۔ ذکر نیب کے سربراہ کے مبینہ اسکینڈل سے شروع ہوا تھا۔جس پر جواب ِ دعویٰ ان کا ادارہ دائر کرچکا ہے۔ ۔ ۔ پاکستانی سیاست کے بڑے بڑے اسکینڈلوں کی مزید تفصیل میں گیا تو پھر ’’کالم پہ کالم ،کالم پہ کالم‘‘ باندھنے پڑیں گے ۔اس لئے اُسے ادھورا ہی چھوڑتا ہوں۔مگر ایک ایڈوائس گو کہ بے فائدہ ہی سہی ۔ ۔ ۔ کہ ہمارے ہاں اس کی روایت نہیں ۔ابھی رواں ماہ میں بھارت کے چیف جسٹس پر اسی طرح کا الزام لگا تھا ۔باقائدہ خود کو پیش کیا،سرخرو ہوئے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ مستعفی ہو کے خود کو احتساب کے لئے پیش کریں۔انشاء اللہ سرخرو ہوں گے۔اللہ ان کا حامی و ناصر۔