یہ قدرت کا قانون ہے اور اٹل۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: اللہ کے قانون کو تم کبھی بدلتا ہوا نہ پاؤ گے۔ ایسے میں کبھی کبھی وہ ڈاکٹر یاد آتا ہے۔ ربع صدی ہوتی ہے، گلا خراب ہوا اور ایسا خراب کہ بخار نے آن لیا۔ میلوڈی مارکیٹ میں واقع ایک اخباری دفتر میں موجود تھا۔ یکایک احساس ہوا کہ بخار بڑھتا جا رہا ہے۔ لپک کر ایک قریبی ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ بات اسے بتائی۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا: گلا اگر سگریٹ نوشی سے خراب ہوا ہے تو آپ اب کیا کریں گے۔ مراد ان کی یہ تھی کہ دوا کھانے کا فائدہ کیا، جب کہ تمباکو سے تم پرہیز نہیں کرو گے۔ ڈاکٹر کی طرف حیرت سے میں نے دیکھا اور کہا: بخار جب تک اتر نہیں جاتا،گلا جب تک پوری طرح ٹھیک نہیں ہو جاتا، سگریٹ نوشی کا کیا سوال۔پھر یہ عرض کیا: یہ پہلی بار تو نہیں۔ ٹھنڈے پانی اور اس علت کی وجہ سے کئی بار پہلے بھی ایسا ہو چکا۔ چند دن کے لیے تمباکو ترک کرنا ایسی کون سی بات ہے؟ ڈاکٹر نے حسرت سے میری طرف دیکھا اور کہا: آپ کی قوتِ ارادی قابلِ رشک ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس نے کرسی میری طرف کھسکائی۔ اپنی چپل کھولی اور انگلیوں کے زخم دکھائے۔ ’’یہ گینگرین ہے‘‘ اس نے کہا ’’اور اس کی وجہ تمباکو نوشی ہے‘‘۔ ایک معالج کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ جب تک یہ نامعقول حرکت ترک نہیں کروں گا، گینگرین ختم نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود۔۔۔۔۔‘‘ چند دن کے لیے تمباکو چھوڑ دینا حیرت انگیز قوتِ ارادی کا کرشمہ نہیں۔ جان پر بن آتی ہے تو تمباکو کیا، آدمی اور بہت کچھ ترک کر سکتاہے۔ عمر بھر کی مرغوب غذائیں، ساری زندگی کے راسخ معمولات۔ ڈاکٹر کا المیہ یہ تھا کہ وہ قوتِ ارادی سے محروم ہو چکا تھا۔ چہرے مہرے سے وہ ایک بھلا مانس نظر آتا تھا مگر کوئی اسے بتانے والا نہیں تھا کہ اللہ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی قوت بخشی ہے۔ کرونا کے بارے میں سوچتے ہوئے احساس یہ ہوتاہے کہ یہ قوتِ ارادی سے محروم ایک معاشرہ ہے، خود کو جس نے حالا ت کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ کوئی مصیبت بری نہیں ہوتی، کوئی ابتلا بدقسمتی نہیں، اس سے آدمی اگر سیکھ سکے۔ آخر کار انسان کو آزمائش ہی کے لیے پیدا کیا گیا۔ مصیبت اگر بری چیز ہوتی تو اللہ کے پیغمبروں اور اولیا کو کبھی نہ پہنچتی لیکن وہ بھوک سے ستائے گئے۔ ان کی زندگیاں خطرے میں پڑیں۔ جنگِ خندق کی طرح ایسا بھی ہوا، جب کلیجے حلق کو آگئے۔ ایسا بھی ہوا، جب پیغمبرؐ کے اجلے رفقا نے پکار کر کہا ’’متیٰ نصر اللہ‘‘ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ انہیں بتایا گیا: ایسی امتیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں، جن پر تم سے بھی زیادہ آزمائشیں ڈالی گئیں۔ وہ پیغمبر جو شہید کر دیے گئے مگر ساتھ ہی خوشخبری دی گئی: اللہ کی مدد قریب ہے۔ اللہ کی مدد ان کے لیے ہے، جو سبق سیکھ لیتے ہیں۔ غالباً جنگِ خندق اس کی بہترین مثال ہے۔ دو اڑھائی ہزار آبادی کے مدینہ النبی کو دس ہزار کے لشکر نے گھیر رکھا تھا۔اس چھوٹی سی آبادی میں ایک تہائی کے لگ بھگ یہودی تھے۔ قریش سے انہوں نے سازباز کر لی تھی۔ بے بسی کا عالم یہ تھا کہ مسلمانوں نے کھجوروں کی پیداوار کا غالباً آدھا حصہ دے کر عارضی صلح کی پیشکش کی۔ حجاز کے اکثر مشرک قبائل قریش کے ہمنوا تھے۔ سامانِ جنگ کا کوئی تناسب نہ سپاہیوں کا۔ خود رسالت مآبؐ کو اس کا ادراک تھا؛چنانچہ جنابِ سلیمان فارسیؓکے مشورے پر خندق کھود دی گئی کہ دوبدو جنگ مشکل ہے۔ سلیمانؓ، جنہیں سرکارؐ سے فارس کا پھل کہا کرتے۔ ایک دن اصحاب ؓ عالی جنابؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بے بسی کا اظہار کیا۔ وہی جملہ، جو عرب ایسے میں کہا کرتے ہیں۔ حضورؐ! اب تو کلیجے حلق کو آگئے۔ آپؐ نے انہیں صبر کی تلقین کی اور نہ جنگ جوئی کے گر بتائے۔ کوئی وعظ کیا اور نہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ بس تعلیم کی تو ایک دعا تعلیم کی: اللھم استرعورتنا و اٰمن روعاتنا۔ یا اللہ ہمارے عیبوں کو ڈھانپ دے اور ہمارے خوف کو امن سے بدل دے۔ باقی تاریخ ہے۔ آندھی اٹھی اور ایسی آندھی کہ خیمے اکھڑ گئے، ہمتیں ٹوٹ گئیں اور عقلیں جواب دے گئیں۔ آنے والے تمام دن فروغ اور سرفرازی کے تھے۔ مسلمان بڑھتے اور قریشِ مکّہ سمٹتے گئے۔سرکارؐ نے مکہ کے راستے میں آباد بیشتر قبائل کو حلیف کیا اور ایک دن دس ہزار قدوسیوں کا لشکر لے کر مکّہ کی پہاڑیوں پہ جا پہنچے۔ کوئی دن تھا کہ بلالؓ کو مکّہ کے پتھریلے راستوں پہ گھسیٹا گیا تھا۔ کوئی دن تھا کہ مسلمان حرم میں عبادت نہ کر سکتے تھے۔ کوئی دن تھا کہ طائف میں سرکارؐ پہ پتھروں کی بارش کی گئی۔ دنیا کی بدترین مخلوق، شہر کے چھچھورے لڑکوں نے آپؐ پہ آوازے کسے تھے۔ کوئی دن تھے، جب ایک گھر میں چھپ کر وہ ملاقاتیں کیا کرتے۔ کوئی دن تھے کہ ہجرت کر کے پانچ سو کلومیٹر دور انہیں یثرب میں پناہ لینا پڑی تھی۔ مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرنا پڑی تھی۔کوئی دن تھے کہ مکّہ کے تمام قبائل نے بنو ہاشم کا بائیکاٹ کیا اور سوا دو سال وہ ایک گھاٹی میں پڑے، جسے بعد میں شعبِ ابی طالب کہا گیا۔ بھوک سے بچّے بلبلایا کرتے۔ درختوں کے پتے کھا کر بسر کی اور ایسا بھی ہوا کہ سوکھا چمڑاابال کر پیٹ بھرا گیا۔ اذیت رسانی کا وہ عالم کہ تاریخ میں شاید ہی جس کی کوئی نظیر ہوگی لیکن وہ جیتے رہے اور آخر کار ان عظمتوں کو پایا، تاریخ میں کوئی مثال جس کی نہیں ملتی۔ آزمائش اور ابتلا کسی قوم کو برباد نہیں کرتی؛البتہ خودترسی، کم حوصلگی اور بے سمتی۔ پرسوں پرلے روز فیاض الحسن چوہان نے اعلان کیا کہ پنجاب کے ٹرانسپورٹروں کو 20فیصد کم کرائے پر بسیں چلانے پر آمادہ کر لیا گیا ہے۔ اتفاق سے اسی وقت یہ ناچیز ٹیلی ویژن پر موجود تھا۔ عرض کیا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کورونا کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ آدھی سواریاں بس میں بیٹھ سکتی ہیں۔ تیل کی قیمت میں ایک تہائی سے زیادہ کمی نہیں آئی؛لہٰذا کرایے کم کرنے کا کیا سوال؟ کرایے تو بڑھیں گے۔ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ خسارے میں کاروبار کون کرتاہے۔ اگلے ہی دن ٹرانسپورٹ ایسو سی ایشن کے صدر عصمت اللہ نے وضاحت کر دی کہ حکومت سے ایسا کوئی پیمان نہیں ہوا۔ عجیب قوم ہے اور عجیب حکومت۔ ابتلا تو ساری دنیا پہ اتری۔ سب سے بڑھ کر چین پر لیکن انہوں نے کیسے اس کا مقابلہ کیا۔ کوریا، سنگا پور اور نیوزی لینڈ نے کس طرح سامنا کیا۔گرتے گرتے، نیوزی لینڈ میں براہِ راست متاثرین کی شرح 0.48فیصد تک آپہنچی ہے۔ پاکستان میں بڑھتی جا رہی ہے اور اندیشہ یہ ہے کہ آنے والے ہفتوں میں اور بڑھے گی۔ کورونا کا علاج معلوم ہے۔ ہاتھ دھوئیے، لوشن لگائیے اور چہرہ ڈھانپیے۔اگر آپ کو یہ نہیں کرنا اور اگر خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے میں حکومت تامل کا شکار رہے گی۔ ایک حکمران کی بجائے وزیرِ اعظم ایک واعظ کا کردار کرتے رہیں گے تو وبا پھیلتی چلی جائے گی۔ یہ قدرت کا قانون ہے اور اٹل۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: اللہ کے قانون کو تم کبھی بدلتا ہوا نہ پاؤ گے۔