اک دل بنا رہا ہوں میں دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں اب کیا کیا جائے اگر کوئی ایسا شخص دل میں آن سمائے کہ جس کے سینے میں دل ہی نہ ہویا وہ سنگ دل ہو تو اس کو موم کرنے کے لیے اور راہ پر لانے کے لیے کچھ نہ کچھ ہوم ورک تو کرنا ہی پڑے گا۔ موضوع تو میرے پاس بہت تھے علی الصبح استاد مکرم ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا فون آ گیا اور ہمیشہ کی طرح میری حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ انہوں نے ’’چین، چینی اور ہم‘‘ والے کالم کو سراہا اور پھر باتوں ہی باتوں میں فراز کے شعر پر بات ہونے لگی تو انہوں نے اکبر کا ایک خوبصورت شعر عنایت کیا: قدم شوق بڑھیں ان کی طرف کیا اکبر دل سے ملتے نہیں یہ ہاتھ ملانے والے یقینا اکبر کے اس شعر سے آپ کے ذہن میںفراز کا شعر ضرور آئے گا: تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا میں سمجھتا ہوں کہ چراغ سے چراغ ایسے ہی جلتا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ ظہیر کاشمیری کا شعر بہت مشہور ہوا: ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے اس کے بعد کسی شعری محفل میں بیٹھے تھے تو شہزاد احمد نے یا کسی اور سینئر نے ایک استاد کا شعر پڑھا تو میں دم بخود رہ گیا۔ تلازمے سے استاد استاد ہی نظر آیا: چراغ آخر شب اس قدر اداس نہ ہو تمہارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے چلیے اس مسئلے کو یہیں ختم کرتے ہیں وگرنہ اس میں کئی پردہ نشینوں کے نام آ جائیں گے ویسے یہ اتفاقات ہیں کیونکہ اتنے بڑے شاعروں ان شعروں کے بغیر بھی کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تاہم شعر کے تذکرے کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ آج صبح معروف عالم دین اور محقق خضر یاسین صاحب ملے تو مسکرا کر فرمانے لگے کہ میرے کالم میں کوٹ کئے گئے شعر بر محل ہوتے ہیں پھر کہنے لگے۔ ابوالکلام آزاد شعر کوٹ کرنے کے لیے تحریر لکھتے تھے اور میرے ہاں تحریر شعر طلب کرتی ہے۔ میں نے کہا حضور! آپ نے کیا پست و بلند ایک کردیئے۔ غبار خاطر تو ہم نے بھی بڑے مزے لے کر پڑھی تھی۔ ان کی تو نثر بھی شاعری ہے۔ بہرحال اچھا شعر مجھے کھینچتا ہے۔ شعروں کے درمیان یا شیروں کے درمیان رہنا اتنا آسان نہیں۔ بعض شعر ایک نئی فضا لے کرآتے ہیں اور آپ کے اندر باہر کا موسم بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ مثلاً ثمینہ راجا کا یہ شعر دیکھئے: رات کی طشتری میں رکھی ہیں میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ چلیے ثمینہ کا ایک قطعہ بند بھی پیش کئے دیتا ہوں: تنہا سر انجمن کھڑی تھی میں اپنے وصال سے بڑی تھی وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا میں اپنے حضور میں کھڑی تھی شعروں کا معاملہ بہت پر اسرار ہے۔ معلوم نہیں کب سمندر سے بادل اٹھیں اور کب کہاں آ کر برسیں اور زمین کو زندہ کردیں۔ یہ سب کچھ عطا ہے۔ شاعر اپنی کیفیت کے تابع ہوتا ہے۔ کوئی لمحہ اسے انگیخت لگا سکتا ہے اور کوئی بڑا ہنگامہ بھی اسے متاثر نہیں کرتا۔ کچھ اجزائے ترکیبی ہیں جو جڑتے ہیں تو ماحول بنتا ہے۔ اگر کوئی شاعراپنی ڈائری لکھے تو دلچسپ ہوگی جیسے کہ ناصر کاظمی کی ڈائری ہے۔ ایک روز میں نے تازہ غزل کہی تو ثمینہ راجا کو ٹیکسٹ کردی مطلع تھا: شام فراق یار نے ہم کو اداس کر دیا ہجر نے اپنے عشق کو حسرت ویاس کر دیا ٹھیک پانچ منٹ کے بعد ثمینہ کا ٹیکسٹ ملا: شہر میں جن کی خوش دلی آج تلک مثال تھی آپ کی اس غزل نے تو ان کو اداس کردیا میں اس کی قادر الکلامی پر حیران رہ گیا۔ چلیے اسی بہانے اس منفرد اور باکمال شاعرہ کو یاد کرلیا۔ اس نے سورہ البقرہ اور سورہ الرحمن کا ایسا زبردست منظوم ترجمہ کیا تھا کہ میں حیران رہ گیا۔ کبھی آپ سے شیئر کروں گا۔ شعر کا تذکرہ چلا تو شاہدہ حسن کا ایک لاجواب شعر بھی آپ کو پڑھا دیں: تو سر بام ہوا بن کے گزرتا کیوں ہے میرے ملبوس کی عادت نہیں لہرا جانا مزے کی بات تو یہ کہ ثمینہ راجا اور فاطمہ حسن صحیح معنوں میں قد آور شاعرات ہیں کہ ان کے قد ہی چھ فٹ کے قریب ہیں۔ شاہدہ حسن تو آج بھی خوبصورت شعر کہہ رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب یہ قدآور شاعرات لاہور پی ٹی وی کے مشاعرہ میں آئیں تو فرمائش کی کہ وہ لاہور کی انارکلی والی فوڈ سٹریٹ سے ’’ٹکاٹک‘‘ کھانا چاہتی ہیں۔ ہم نے ٹکاٹک بنوایا۔ فاطمہ حسن بھی ان کے ساتھ تھیں۔ اس روز ہم نے ایک دوسرے سے خوب غزلیں سنیں۔ آخر میں ثمینہ کا ایک اور شعر: صرف اک بار اس کی منت کی عمر بھر خود کو پھر ملامت کی