گزشتہ کئی ہفتوں سے حکومتی اتحاد یوں نے حکومت کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ انکے مطالبات جائز بھی ہیں اور وہی ہیں جنکا وعدہ انکو اتحادی بناتے ہوئے کیا گیا تھا جو بوجوہ پورے نہیں ہو پارہے۔ وزیر اعظم نے خود چوہدری برادران یعنی مسلم لیگ (ق) کے علاوہ تمام اتحادیوں کو بلا کر یا انکے پاس جا کر بات کی ہے اور زیادہ تر کے ساتھ بات بن گئی ہے لیکن چوہدری برادران کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ وزیر اعظم معاملات بہتر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے یا چوہدری برادران کسی ایسے مطالبے پر مصر ہیں جو سر دست عمران خان پورا نہیںکر پا رہے ہیں یا نہیں کرنا چاہ رہے ہیں۔ ابتدائی کشمکش اس وقت شروع ہوئی جب کچھ ماہ قبل ق لیگ کو گورنر پنجاب سے شکایت پیدا ہوئی تھی اور اس میٹنگ کی حکومتی وفد کے ساتھ گفتگو کی ویڈیو ، آڈیو کے ساتھ لیک کی گئی تھی جس میں چوہدری پرویز الٰہی پنجابی میں کہہ رہے تھے ؛’’ گورنر سرورنوں سمجھائو‘‘۔ شاید گورنر صاحب کو سمجھا بھی دیا گیا اور اسکے بعد چوہدری صاحبان کو گورنر سے شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ انکی طرف سے ابھی تک وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر بھی کوئی اعتراض کسی حوالے سے سامنے نہیں آیا بلکہ سیاسی حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ وزیر اعلیٰ چوہدری صاحبان کی مکمل تابعداری کرتے ہیں اور موجودہ تلخی کی وجہ عثمان بزدار بالکل بھی نہیں ہیں۔جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ایک بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ق) حکومت کے ساتھ معاملات ٹھیک رکھنا چاہتی ہے۔حکومت کو کوئی نہیں کہہ رہا کہ اتحادیوں کے ناجائز مطالبات مانیں یا اگر ان میں کوئی نیب کے راڈار پر ہے یا کسی اور غلط کاری میں ملوث ہے اسکو رعایت دی جائے۔ جو وعدے وعید کئے گئے ہیں انکو پورا کرنا اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔عمران خان اس معاملے میں لیت و لعل سے کیوں کام لے رہے ہیں اسکی بظاہر ٹھوس وجہ سمجھ نہیں آ رہی لیکن خیبر پختونخواہ کے تین وزیروں کی برطرفی ،جنکے بارے میں خود وزیر اعظم بہت اچھی رائے رکھتے تھے، اشارہ ملتا ہے کہ انہیں چوہدری برادران سے کیا مسئلہ ہے۔جس طرح ان تین صوبائی وزیروں کے حوالے سے خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ کے خلاف جتھہ بندی کی خبر ان تک پہنچائی گئی ، بھلے وہ انکے کسی دوست کی مہربانی تھی یا وزیر اعظم کو ادارہ جاتی نظام کے تحت اطلاع ملی تھی، انہوں نے فوراً اپنے چہیتے وزیروں کو ہٹانے کے لئے گرین سگنل دیدیا۔ دکھائی یوں دیتا ہے کہ چوہدری صاحبان کے حوالے سے بھی انکے پاس کوئی ’’خفیہ‘‘ اطلاع پہنچی ہے اور وہ ناراض ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔عمران خان کی زندگی پر نظر ڈالیں تو انہیں شاید ناراض دوستوں یا اتحادیوں کو منانے کا تجربہ نہیں ہے اور نہ روٹھنے منانے جیسے جھمیلے میںپڑنا انکے مزاج کے مطابق ہے۔لیکن ایک کام وزیر اعظم ضرور کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی ’’خفیہ‘‘ اطلاع کسی کے بارے میں بھی ملے اسے کم از کم دو تین ذرائع سے کنفرم کر کے کسی قدم اٹھانے سے پہلے متعلقہ شخص سے بھی ضرور پوچھ لیں ۔انہوں نے اپنے وزیر صحت عامر محمود کیانی کو بھی ایک خفیہ اطلاع پر عہدے سے ہٹایا تھا لیکن اس اطلاع کی بنیاد پر نہ تو کوئی کاروائی ہوئی بلکہ انہیں تحریک انصاف کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔شاید یہ اطلاع بھی درست نہیں تھی۔ اگر وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ چوہدری صاحبان کسی ایسی کاوش میںلگے ہیں جو انکے اقتدار کے لئے خطرہ ہو سکتی ہے تو ان سے براہ راست بات کرنے میں کیا قباحت ہے۔جس طرح دو روز قبل چوہدری پرویز الٰہی نے سوتنوں جیسے سلوک کا شکوہ کیا ہے اس سے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ بار بار صلح کا جھنڈا بلند کر رہے ہیں۔ یقیناً انکی ذمہ داریاں ایسی ہیں کہ وہ آئے دن صلح کے اجلاس منعقد نہیں کر سکتے لیکن جو کمیٹی ق لیگ سے بات کررہی تھی اسکو تبدیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔پھر درمیان میں عمران خان لاہور بھی گئے، اگر وہ چوہدری شجاعت کی مزاج پرسی کے بہانے انکے ہاں چلے جاتے تو چوہدری صاحبان اتنے وضعدار ہیں کہ وہ نہ صرف مان جاتے بلکہ اپنے مطالبات پر پہلے کی طرح شدّو مد سے اصرار نہ کرتے۔ ایک اور وجہ اس ناراضگی کے طول پکڑنے کی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وزیر اعظم اور چوہدری صاحبان اتحادوں کی سیاست کا بہت زیادہ تجربہ نہیں رکھتے۔ وزیر اعظم تو پہلی مرتبہ اس صورتحال سے دوچار ہیں۔ چوہدری برادران بھی سوائے پیپلز پارٹی کے ساتھ 2009 میں اتحادی بننے کے علاوہ کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ اس اتحاد میں بھی انکا واسطہ آصف علی زرداری سے تھا جو معاملات بگاڑنے نہیں بنانے کا بہت تجربہ رکھتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں انہیں جوڑ توڑ کی سیاست کرتے دیکھا ہے جب انہوں نے نوابزادہ نصراللہ جیسے با اصول شخص کو رام کر لیا تھا اور پہلی بار وہ کسی حکومت کا حصہ بنے۔اب معاملہ دو ایسی شخصیات کے درمیان ہے جو اپنی ضد آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔اس صورتحال میں جتنی مرضی کمیٹیاں ڈال لیں کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ کسی نہ کسی کو اپنی اَنا کے خول سے باہر نکلنا ہو گا۔وزیر اعظم کا خیال ہو سکتا ہے کہ چند ارکان اسمبلی کے ساتھ ق لیگ انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتی لیکن قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔ اسی طرح دو، چار لوگ ادھر ادھر ہوتے رہے تو یہ ایک بہت بڑی تعداد بن سکتی ہے اور پھر مسلم لیگ(ن) بھی تو نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ جیسے ہی نمبر گیم حکومت کے خلاف ہوئی تو پیپلز پارٹی بھی میدان میں کودنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ہو سکتا ہے وزیر اعظم کا کچھ دائو پر نہ لگا ہو لیکن اس ملک کے عوام کی امیدیں دائو پر لگ جائیں گی۔1971میں ذوالفقار علی بھٹو کے نے یہ امید دی تھی، جوایک بار پھر عمران خان نے زندہ کی ہے۔