ملتان سے ایک خبر موصول ہوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملتان کے لوگ متوقع خطرے کے پیش نظر حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے معاملے میں سب سے آگے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمیں ان کی دور اندیشی پر رشک آ رہا ہے اور ہم پاکستان کے دوسرے شہروں کے باسیوں سے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ ملتان والوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے اپنے شہروں میں ایک انجمنِ تحفظِ شوہران کی تشکیل کر ڈالیں۔ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں(بالخصوص شوہروں کی زندگی کا)۔ لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر آپ لوگ بیویوں کا چیلنج قبول کر لیں اور ان پر واضح کر دیں کہ شوہروں کی زندگی کو جہنم تو بنایا جا سکتا ہے لیکن انہیں جہنم رسید کر دینا اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ بیٹھی ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے مخلصانہ مشورے پر سنجیدگی سے غور اور عمل کرنے کے بجائے شوہر حضرات اپنی روایتی بے وقوفی سے کام لیتے ہوئے اسے محض مذاق سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے اور بے خبری میں مارے جائیں گے اور پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب سوائے ملتان کے پاکستان بھر میں شوہر نامی مخلوق ڈھونڈنے سے نہ ملے گی۔ اگر اتفاقاً کسی شہر میں کوئی شوہر پکڑا گیا تو لوگ اسے عجوبہ، روزگار قرار دے کر چڑیا گھر میں رکھ لیں گے اور مرنے(یابیوی کے ہاتھوں قتل ہونے) کے بعد عجائب گھر میں سجا لیں گے۔ لہٰذا ؎ خیری کن ای فلاں و غنیمت شمار عمر زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند یعنی اے شوہر نامدار! ہوشیار ہو جا اور اپنی جان بچانے کی فکر کر، اس سے پیشر کہ اخبارات میں خبر آئے کہ بیوی نے ایک اور شوہر کا دھڑن تختہ کر دیا۔ انجمنِ تحفظ شوہران کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے شہر کے سب سے سینئر شوہر کو مدعو کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ بیوی کے خوف سے نہ آنا چاہے تو کسی ایسے سینئر شوہر کو تکلیف دی جا سکتی ہے جس کی بیوی حسن اتفاق سے اس سے پہلے انتقال کر چکی ہو۔ اگرچہ ایسے کامیاب شوہر کا دستیاب ہونا فی زمانہ بہت مشکل ہے لیکن ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ بس مقصد سے سچی لگن ہونی چاہیے۔ اگر دوسرے شہروں کے شوہر ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہوں تو اس صورت میں انجمنِ تحفظ شوہران ملتان کو چاہیے کہ وہ ہر شہر میں اپنی شاخیں کھول دے۔ ممکن ہے ان شاخوں کے لیے دفاتر کے حصول میں انہیں دقت پیش آئے کیونکہ شوہر اپنی مفلوک الحالی کے سبب دفتروں کا کرایہ نہیں دے سکیں گے۔ اس سلسلے میں ہمارا مشورہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے دفتروں میں آج کل کام کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ کیوں نہ انہیں قوم کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ سیاست دان جن کی غالب اکثریت خود شوہر ہے۔ اس سلسلے میں بخت سے کام نہیں لیں گے۔سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے منشور میں شوہروں کی جان کے تحفظ کا وعدہ کریں۔ اگر خدانخواستہ شوہر ہی نہ رہے تو انتخابات میں بیویاں ہی ووٹ ڈالیں گی اور بیویاں ہی منتخب ہو کر حکومت بنائیں گی اور پھر قوم کو پتہ چلے گا کہ مارشل لا کسے کہتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ہمیں گمان تک نہ تھا کہ چھوٹی سی بات بڑھ کر یہ رنگ اختیار کر لے گی۔ ہم نے تو محض دوستی کا تقاضہ پورا کرنے کی خاطر اپنے سب شادی شدہ دوستوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی بیگمات سے ذرا ہوشیار رہیں کیونکہ قرب قیامت کی نشانیاں ظاہر ہو رہی ہیں اور بیویوں کے ہاتھوں شوہروں کی زندگی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ے۔ بہت سے دوستوں نے ہماری بات کو ہنسی میں ٹال دیا لیکن چند ایک گہری سوچ میں ڈوب گئے اور جب اگلے ہی روز خبر آئی کہ حسن ابدال میں بھی ایک وفا شعار عورت نے اپنے دیور سے عہدِ وفا نبھانے کی خاطر اس کے ساتھ مل کرمسالا کوٹنے والے ڈنڈے سے اپنے شوہر کو کوٹ ڈالا تو شوہروں کی اکثریت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ انہی تشویش زدہ شوہروں میں ہمارے پرانے دوست اور ہمسائے گھمن صاحب بھی شامل ہیں۔ وہ کل صبح ہی صبح اخبار پکڑے سخت وحشت کے عالم میں ہمارا دردوازہ پیٹنے لگے۔ شور سے ہماری آنکھ کھل گئی۔ ہم نے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ وہ چھوٹتے ہی بولے: ’’اتنی دیر سے دروازہ پیٹ رہا ہوں۔ کیا کر رہے تھے تم؟‘‘ ’’سو رہا تھا‘‘۔ ہم نے جواب دیا ’’سو رہے تھے؟‘‘ انہوںنے حیرانی سے پوچھا۔ ’’شوہر ہو کر اتنی بے احتیاطی۔ دیکھتے نہیں زمانہ کدھر جا رہا ہے؟‘‘’’زمانہ گیا جہنم میں۔ آپ یہ بتائیں صبح ہی صبح کیسے تکلیف کی؟ اور یہ آپ اتنے ہراساں کیوں نظر آ رہے ہیں؟‘‘ہم نے پوچھا۔ ’’ہراساں نظر نہ آئوں تو کیا شاداں و فرحاں نظر آئوں۔ میں تو اس وقت کو کوس رہا ہوں، جب شادی کے لیے ہاں کر دی‘‘۔ ’’کیا بھابی سے جھگڑا ہو گیا؟‘‘ ’’ابھی تو نہیں ہوا لیکن چند دن سے اس کی حرکات مشکوک دکھائی دے رہی ہیں لیکن میں بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہوں۔ کون جانے کس وقت وہ مجھے مار ڈالے۔ سوچتا ہوں رات دفتر ہی میں گزار لیا کروں۔ کمرے میں دیوان تو ہے ہی۔ بستر گھر سے لے جائوں گا‘‘۔’’آخر آپ کو بیٹھے بٹھائے ہوا کیا؟‘‘ ’’میں نے ساری رات واقعی بیٹھے بیٹھے گزاری ہے اور صبح ہوتے ہی یہ منحوس خبر پڑھنے کو مل گئی۔ لو تم بھی پڑھ لو‘‘۔ ہم نے خبر پڑھی جو وہی حسن ابدال والی تھی۔ ہم نے انہیں سمجھانے کی غرض سے کہا، ’’دیکھیے صاحب!آپ کی شادی کو ماشاء اللہ پندرہ برس ہونے کو ہیں۔ بچے جوان ہو رہے ہیں اور پھر بھابی جیسی نیک اور وفادار بیوی تو اللہ ہر کسی کو دے۔ آپ کو ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے‘‘۔ ’’غضب خدا کا مسالا کوٹنے والے ڈنڈے سے شوہر کو مار ڈالا!‘‘ انہوں نے ہماری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کے گھر میں بھی کوئی مسالا کوٹنے والا ڈنڈا ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ ’’نہیں۔ ہم تو گرائنڈر سے مسالا پیس لیتے ہیں‘‘ جواب ملا۔ ’’تو پھر آپ کیوں گھبرا رہے ہیں؟گرائنڈر اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اس میں خاوند کو ڈال کر پیسنا ناممکن ہے‘‘۔ ’’کیسی احمقانہ باتیں کر رہے ہو۔ خاوند کو کسی بھی چیز سے ختم کیا جا سکتا ہے‘‘۔ ’’خاوند بے چارے کو ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے صاحب! وہ تو اسی روز ختم ہو جاتا ہے جس روز اس کی شادی ہوتی ہے‘‘۔ ’’واہ!تم نے یہ ضرب المثل نہیں سنی مرے کو مارے شاہ مدار۔ ویسے بھی ضرب الامثال پر عورتیں زیادہ عمل کرتی ہیں‘‘۔