اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا دھوپ میں جلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا وہی جو کسی نے کہا تھا ’’آئو اک دوسرے کے دُکھ بانٹ لیں‘‘ بلکہ راجندر سنگھ بیدی نے افسانہ لکھا تھا ’’اپنے دُکھ مجھے دے دو‘‘ شاید اسی کا نام زندگی ہے۔ احساس ہو تو دُکھ بانٹنے میں جو خوشی اور مسرت ہے اس سے ہر شخص آشنا نہیں۔ فیض صاحب نے بھی کیا خوب کہا تھا ’’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ مگر اب اگر تصرف کر کے کہا جائے تو یوں ہو گا ’’اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں کرونا کے سوا‘‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے کرونا کو کچھ زیادہ ہی خود پر سوار کر لیا ہے۔ غالب نے کہا تھا ’’موت کا ایک دن معین ہے‘‘ پھر خود ہی سوال اٹھا دیا ’’نیند کیوں رات بھر نہیں آتی‘‘ بات اصل میں یہ ہے کہ یہ خود آگہی ہے جو ہمیں جینے نہیں دیتی کہ ہم تہی دست ہیں۔ وگرنہ زندگی انسان کی موت تک حفاظت کرتی ہے کہ ایک ثانیہ بھی کوئی زیادہ نہیں جی سکتا اور نہ ہی کم۔ آفات آتی ہیں اور آزمائش زندگی کا حصہ ہیں۔ ’’ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا، نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا‘‘ نا امیدی مگر کفر ہے۔ طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں۔ کسی کی بات پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو کل بھی تو عقل کے بغیر نہیں ہوتا۔ حکمت و دانائی مومن کی معراج ہے۔ جن باتوں کا انسان کو ادراک نہ ہو یا علم نہ ہو تو ایسی باتوں پر ضد اور ہٹ دھرمی کیسی! اب جو کرونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کی جا رہی ہیں وہ کوئی توکل کے خلاف نہیں۔ فاطمہ قمر نے پوسٹ لگائی ہے کہ: دل تو پہلے ہی نہیں ملتے تھے اب کے ہم ہاتھ ملانے سے گئے دعا علی لکھتی ہیں کہ وہ جوتا خریدنے گئیں تو دکاندار نے کہا ’’بی بی! پہلے سینیٹائزر سے ہاتھ دھو لیں‘‘ وہ کہتی ہیں کہ غصہ تو بہت آیا مگر جوتے بھی تو خریدنے تھے، سو ہاتھ دھوئے مگر سوچا کہ یہ کیا تماشہ ہے۔ اب کہاں کہاں ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ واقعتاً یہ لگتا بھی ہے کہ کہیں اس وہم میں ہمیں دکانوں کو غسل ہی نہ دینا پڑ جائے۔ دعا علی کا تعلق سندھ سے ہے کہ وہ لوگ کچھ زیادہ ہی محتاط ہو گئے ہیں۔ وہ کریں بھی کیا کہ کرونا کے کیسز وہاں زیادہ نکل آئے ہیں۔ خوشی کی بات یہ کہ سندھ کے حکمران مستعد تو ہوئے ہیں اور مراد علی شاہ دن رات اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ ایسے ہی فکر مند کبھی شہباز شریف ہوتے تھے، جب پنجاب میں ڈینگی پھیلا تھا۔ سندھ والے اس سپرٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کریں گے۔ تشویش کی بات یہ کہ تفتان سے زائرین جو وفاق نے بلائے ان میں سے سندھ میں آنے والوں کا ٹیسٹ تو ہو گیا اور ڈیڑھ سو کے قریب کرونا کے متاثرین نکل آئے مگر ان زائرین کا کیا ہوا جو تین گنا تعداد میں پنجاب کو گئے۔ اس کا تذکرہ برادر آصف محمود نے بھی کیا ہے کوئی نہیں جانتا وہ کس حال میں ہیں۔ اب نادرا کی مدد لینے کی بات ہو رہی ہے۔ اتنی بڑی غفلت کا ذمہ دار کون ہو گا؟ دیکھا جائے تو سب سے اہم تدبیر احتیاط ہی ہے۔ اچھا لگا کہ ماڈل کے طور پر صفحہ اول پر عمران خان اور مولانا طارق دور سے ہی ایک دوسرے کو سلام کر رہے ہیں اور نیچے لکھا ہے ہاتھ ملانے کی بجائے ہاتھ سینے پر رکھیے۔ ویسے بھی ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘ یا پھر صاحب کو دور ہی سے سلام بہتر ہے۔ ان لوگوں سے ہوشیار رہیے کہ جو سوشل میڈیا پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں کہ یہ سب بکواس ہے۔ یونہی کرونا کا ہوّا کھڑا کر دیا گیا ہے۔ یہ کہنا کہ یہ صرف امداد لینے کے لیے یا پھر امریکہ کی غلامی میں کیا جا رہا ہے غلط ہے، جناب ہم ڈینگی کا عذاب بھگت چکے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ میرے پیارے وطن میں پھیلے بلکہ دعا ہے کہ اللہ ساری انسانیت کو محفوظ رکھے اور اسے ہدایت کا سبب بنائے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ کچھ کچھ اپیل کرتی ہے کہ یہ وائرس چھوڑا گیا ہے۔ ڈینگی کے بارے میں بھی ڈاکٹرز کا ایسا ہی تاثر تھا۔ میں نے ایک مووی بھی دیکھی جس میں عراق کا صدام حسین اپنی ایک میٹنگ میں بتا رہا ہے کہ انہیں دھمکی ملی ہے کہ وہ ان پر کرونا وائرس چھوڑ دیں گے۔ واقعتاً ان سنگ دلوں کی تاریخ کچھ اسی طرح کی ہے کہ انہوں نے کالوں کو جب کمبل خیرات کیے تو اس میں چیچک کے جراثیم چھوڑ دیئے مگر ہوا کا رخ بدل بھی سکتا ہے بلکہ کچھ کچھ بدل بھی گیا ہے۔ بات تو پرانی ہے مگر کچھ ہے کہ کسی کے لیے گڑھا کھودنے والا خود بھی اس میں گر سکتا ہے۔ آپ اسے ایپی ڈیمک فیئر Epidemic Fearکہیں یا کچھ اورکہیں مگر اب اس کا مقابلہ تو کرنا ہے۔ اس حوالے سے یقینا ایک مسلمان قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتا ہے اس حوالے سے ڈاکٹر ناصر قریشی نے اچھی بات کی کہ قرآن مسلمانوں کو اللہ اس کے رسولؐ اور اولی الامر کی اطاعت کرنے کو کہتا ہے یہ بات بھی ہے کہ اولی الامر اللہ اور رسولؐ کے تابع ہوں۔ اولی الامر سے مراد یقینا حکمران ہیں کہ جن کا حکم چلتا ہے۔ اس مقصد کے لیے علماء نے یہ بات کہی کہ بہت سے احکام کے حوالے سے علماء بتائیں گے اسی طرح ہر فیلڈ کا علم بھی الگ ہے۔ گویا جو ڈاکٹر کہے گا حکمران اسی کا حکم دیں گے۔ نتیجتاًیہ جو احتیاطی تدابیر ہیں یہ اسلام ہی کے مطابق ہیں۔ مجھے ایک بات کی خوشی ہوئی کہ حکومت اس معاملے میں کچھ سنجیدہ ہوئی ہے۔ پتہ یوں چلا کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ اس حوالے سے بھی لکھیں کہ ڈاکٹرز کو وسائل مہیا کیے جائیں کہ وہ پہلے اپنے آپ کو محفوظ بنائیں کہ پہلا ایکسپوژر ان کا ہے۔ مریض کو سب سے پہلے ناک کان گلے والا ڈاکٹر دیکھتا ہے، پھر چیسٹ والا اور پھر جنرل فزیشن۔ پھر انہوں نے کہا کہ وہ اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والے ہیں۔ اگلے ہی روز جب میں نے ان سے تفصیل پوچھی تو کہنے لگے ’’نہیں اب لکھنے کی ضرورت نہیں رہی حکومت نے تسلی بخش اقدامات کیے ہیں یا یقین دہانی کرائی ہے۔ کل تک سبزہ زار بھی بچوں کے شور سے گونج رہے تھے مگر اب مسجدوں میں اعلان ہو گیا ہے کہ پارکوں اور سبزہ زاروں میں کوئی نہیں آئے گا۔ چھٹیاں تو بچوں کو پہلے ہی ہو چکی ہیں اور زیادہ تر بچے اپنی نانیوں کے گھروں میں پہنچ چکے ہیں۔ بازاروں میں زندگی رواں دواں ہے کہ ابھی شاید اس طرح کا احساس ہمارے ہاں نہیں جو یورپ میں ہے۔ آپ جو بھی کہیں مگر پانچ وقت نماز سے پہلے وضو میں باقاعدہ مسواک کا استعمال بہت ہی مجرب ہے۔ پھر ذکرِ خدا میں رہنا کتنا اچھا ہے کہ وہی شافی و کافی ہے۔ اقبالؔ کے شعر کے ساتھ اجازت: وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات