فیس بک کھولیں تو آپ کو ایسے ایسے لوگ اپنی سیاسی پارٹیوں کے نام پر ایک دو کے خلاف چنگھاڑتے‘ بدزبانی کرتے اور زہر فشانی کرتے دکھائی دیں گے کہ گاہے انسان حیرت اور تاسف میں ڈوب جاتا ہے۔ سیاست نے ہمارے سماج میں بدصورت تقسیم پیدا کر دی ہے۔ انسانوں کو بتوں کا درجہ دینے والی اندھی سیاسی وابستگیوں نے دوست کو دوست کے خلاف صف آرا کر دیا ہے۔ مذہب‘ مسلک‘ تفرقے‘ رسم و رواج اور سیاست معاشرہ تقسیم در تقسیم کے بدترین عمل سے گزر رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ سطحی سیاست کے نام پر اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں کو ایک دوجے کے خلاف صف آرا ہوتے اور گالی گلوچ پر اترتے دیکھ کرسیاسی مباحث ‘ ٹاک شوز‘ سیاسی گفتگو سے اور پھر سیاست سے ہی دل اوبھنے لگا۔ سیاست کے کوچے سے دل اٹھا تو کتاب میں پناہ لی۔ نظم اور شعر میں دل لگانے کی کوشش کی۔ انٹرنیٹ پر دانستہ سوشل میڈیا سے دور رہنے کی کوشش میں کچھ اور پڑھنے لگی تو لاطینی امریکہ کے ایک ممتاز لکھاری‘ شاعراور صحافی ماریو ورگاس لوساmario vargasکا ایک بہت خوب صورت مضمون نظر سے گزرا۔ماریو ورگاس کو 2010ء میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ یقین کریں ایسا فکر انگیز تقسیم در تقسیم ہوتے انسانی سماج کا ایسا خوب صورت تجزیہ۔ اور سب سے بڑی بات کہ مجھے میرے بہت سے سوالوں کے جواب اس مضمون میں ملے کہ آج ہمیں مذہب سے لے کر سیاست تک ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما انسان جو دکھائی دیتا ہے اسے ایک نقطے ایک جگہ کیسے اکٹھا کیا جائے کہ وہ ایک دوسرے کے احساس کا شریک بن جائے۔ وہ مختلف مذہبی سیاسی اور مسلکی نظریات رکھنے والے دوسرے انسانوں کے ساتھ یگانگت اور ہم رنگی محسوس کرے ماریو کے اس مضمون کا عنوان ہے: way literature ماریو لکھتا ہے کہ مجھے اکثر ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ہماری زندگی اس قدر مشینی اور مصروف ہو چکی ہے کہ لٹریچر پڑھنے کے لیے وقت کہاں سے آئے۔ کوئی نوجوان یہ سوال کرتا ہے کہ کیا اس ڈیجیٹل اور سائنسی دنیا میں بھی ہمیں ادب کی اتنی ہی ضرورت ہے؟ یہ سب سوالات اکثر ادیبوں اور شاعروں سے پوچھے جاتے ہیں اور سچی بات بتائوں کہ مجھے یہ سوال ہمیشہ بہت گھسا پٹا سا لگتا تھا اور معذرت کے ساتھ ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے کبھی اس کا کوئی تخلیقی اور قائل کر لینے والا جواب نہیں دیا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ شعر و ادب خط اٹھانے اور ذہنی تفریح کا ایک ذریعہ ہے۔ انسان اس سے سیکھتا ہے لیکن بخدا جو نکتہ آفرینی اس لاطینی شاعر اور ادیب ماریو ورگاس نے اپنے مضمون میں کی ہے اس نے مجھے قائل کر لیا۔ اس کالم کو لکھنے کی تحریک ماریو کے یہی خیالات ہیں جس میں وہ کہتا ہے کہ جوں جوں انسان ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے۔ ہر شعبے کے اندر سپیشلائزیشن کا تصور بڑھتا جا رہا ہے۔ہر چیز خانوں مبں بٹتی جا رہی ہے۔ پہلے طبیب مریض کو ایک پورے انسان کی حیثیت سے دیکھ کر اس کا علاج کرتا تھا۔ اب کان کا ماہر صرف کان کی بیماری کا علاج کرے گا۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ پورے معاشرے کے اندر کمپارٹمنٹ بنتے جا رہے ہیں۔ مذہب‘ مسلک ‘ قومیت ‘ سیاست ‘ سیاسی جماعتیں ‘ سیاسی نظریات ایک ہی معاشرے میں رہنے والے انسانوں کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے الگ کر دیتے ہیں۔ انسانی علوم میں صرف اور صرف ادب ایسا علم ہے‘ جو تقسیم در تقسیم ہوئے‘ مختلف نظریات اور معاشروں اور مذاہب کے افراد کو ایک جگہ اکٹھا کرتا ہے اور صرف شعرو ادب کے ذریعے ہی ہم یہ دریافت کر پاتے ہیں کہ بظاہر اختلافات کے لبادوں میں لپٹا ہوا انسان تو احساس اور جذبات کی سطح پر بالکل ایک جیسا ہے۔ ادب ہمیں اپنائیت اور یگانگت کا احساس دیتا ہے۔ ماریو نے تو ادب کو مسلک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ادب ہی وہ مسلک ہے جس میں دنیا کا ہر انسان اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت اور harmonyمحسوس کرتا ہے۔ ادب سے جڑے رہنے والے سماج میں بکھرائو کم اور سلجھائو زیادہ ہوتا ہے جس سماج میں لوگ شعر و ادب سے جڑے ہوں وہاں انسانوںمیں مطابقت اور برداشت زیادہ ہوتی ہے۔ اختلاف اور تفرقہ کم ہوتا ہے۔ شعرو ادب زبان و بیان سکھاتا ہے اور کسی بھی خطے کی زبان کو محفوظ بنانے کا ایک ذریعہ اس زبان کا ادب بھی ہے جو کتاب نظم‘ شعر افسانے اور ناول کی صورت میں اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا ہے ادب زبان کی میراث کا محافظ ہے۔ لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم ادب کے ذریعے ہی انسانوں کے احساسات اور جذبات کی یک رنگی کو دریافت کرتے ہیں۔ محبت‘انتظار ہجرو وصال پر شاکر شجاع آبادی سرائیکی میں لکھے یا رابرٹ فراسٹ انگریزی میں۔ انسانی احساسات اور جذبات کی کیفیت ایک ہی ہو گی۔ یہ ہے وہ یگانگت اور ہم آہنگی جو شعر و ادب کی چھتری تلے ہمیں محسوس ہوتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ جیسا کہ میں نے کالم میں اوپر لکھا کہ ماریو ورگاس کا مضمون ہی اس کالم کا محرک ہے اور یہ محض اتفاق ہے کہ اسی دوران مجھے ادبی رسالہ ’’تسطیر‘‘ موصول ہوا۔ اور تسطیر کے مدیر ممتاز نظم گو شاعر نصیر احمد ناصر ہیں جنہیں سراپا نظم کہنا زیادہ بہتر ہو گا۔ ماریو ورگاس کے خیالات بیان کرتے ہی میں نصیر احمد ناصر صاحب کا اور تسطیر کا تذکرہ اس لیے کر رہی ہوں کہ تسطیر کے پلیٹ فارم پر میں نے مختلف ادبی اور سیاسی نظریات کے حامل افراد کو اکھٹے دیکھا ہے۔ کالم کے آغاز میں جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ فیس بک پر نظر آنے والی سیاسی پوسٹوں کو دیکھ کر اب اکتاہٹ ہوتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر دشنام طرازی‘ گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں وہیں نصیر احمد ناصر صاحب کی کوئی پوسٹ نظر سے گزرے تو فرق واضح نظر آتا ہے کہ ادب کی چھتری تلے لوگ باہم جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کہی ہوئی خوب صورت نظموں اور شعروں میں بیان کیے گئے انسانی احساس اور رویوں میں شریک ہو کر ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ لاطینی دانشور ماریو کے خیالات کے تناظر میں دیکھیں تو نصیر احمد ناصر صاحب کی یہ بہت اہم اور قابل قدر کنٹری بیوشن ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے شعر و ادب کو ایک تحریک میں بدلا ہے۔ دور دراز کے شہروں اور قصبوں میں رہنے والے نووارد شاعروں کو بھی تسطیر اور نصیر صاحب کے اس پلیٹ فارم تک رسائی حاصل ہے وہ کوچہ ادب میں آنے والے ڈرے سہے نووارد شاعروں اور شاعرات کی حوصلہ افزائی پوری کمٹمنٹ کے ساتھ کرتے ہیں پھر تسطیر جیسے اہم ادبی پرچے میں نئے لکھنے والوں کو بڑے اہتمام اور محبت کے ساتھ چھاپتے ہیں۔ یقینا یہ حوصلہ افزائی نئے لکھنے والوں کے لیے ان کے ادبی سفر میں ایک زادِ راہ ثابت ہوتی ہے۔ اس بار تسطیر بڑے اہتمام سے چھاپا گیا ہے۔ کم و بیش 632صفحات پر مشتمل اس ادبی پرچے میں پڑھنے کو بہت کچھ ہے ۔کہتے ہیں ادبی پرچے کو چھاپنا خسارے کا سودا ہے۔ خسارے کے اس سودے میں نصیر احمد ناصر صاحب کے ساتھ ساتھ دو پبلشر بھائیوں گگن شاہد اور امر شاہد کی بھی ادب سے کمٹمنٹ قابل داد ہے۔ اس لیے کہ ماریو کے الفاظ میں ادب ہی وہ مسلک ہے جس سے جڑ کر ہم یہ دریافت کر پاتے ہیں۔ انسان خواہ کتنے ہی سیاسی‘ مذہبی‘ قومیتی اور مسلکی اختلافات میں بٹا ہو وہ انسانی جذبات ‘ احساسات اور رویوں کی سطح پر ایک جیسا ہے اور یہی ادب کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور خوب صورتی بھی۔ نصیر صاحب!آپ کی کوششیں قابل قدر ہے کہ آپ سیاسی پولرائزیشن کے اس دور میں نوجوانوں کو ادب کے مسلک سے جوڑ رہے ہیں۔ تقسیم در تقسیم ہوتے اس سماج کو شاید ادب کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔