ویسے تو کھیلوںمیں ہمارے ہاں یہ روایت رہی ہے کہ جو ذرا اچھا کھیلنا شروع ہو جاتا ہے اسے ٹیم ہی سے نکال دیا جاتا تاکہ اس کا دماغ ہی نہ خراب ہو جائے۔ یہ میں مذاق سے نہیں لکھ رہا۔ واقعتاً جب ایک مرتبہ ہاکی ٹیم سے میرا فیورٹ حسن سردار نکالا گیا تو تب میں نے حسن کے بارے میں انگریزی میں نظم لکھی کہ ایم اے انگریزی کا دور تھا۔ منیر نیازی نے بھی شاید اسے ہی عالم میں کہا ہو گا: مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں ان سے تھا میں شہر میں کسی کے برابر نہیں رہا کھیل کی بات تو تمہید تھی اب کے تو علم و تعلیم کے میدان میں ہمارے بزرجمہروں کا یہی رویہ نظر آ رہا ہے۔ خاص طورپر اس دور خانان خاناں میں کچھ بے ادب لوگ جو کھلواڑ ادب کے ساتھ کرنے جا رہے ہیں وہ ناقابل معافی ہو گا۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ کی طرف سے خبر نامہ ملا اور ساتھ ہی ایک خط لف ہے جس پر یہ اندوہناک خبر کہ ڈاکٹر عشرت حسین نے ادب کے دو اہم ترین اداروں اردو سائنس بورڈ اور لغت بورڈ کو ایک تیسرے ادارے فروغ قومی زبان میں ضم کرنے کا عہد کر لیا ہے۔ یہ تیسرا ادارہ وہی مقتدرہ ہے۔ اردو سائنس بورڈ تو ایک شاندار اور سنہرا ماضی رکھتا ہے اور خاص طور پر اس کے ساتھ ایک بہت بڑا نام اشفاق احمد وابستہ ہے۔ یہ ہمارے دلوں میں بستا ہے۔ ہم وہاں اشفاق صاحب ملتے اور پھر ہمارا جگری دوست اسلم کولسری ۔ بے شمار نام ہیں جنہوں نے اس ادارے کی آبیاری کی۔ اسی ادارے کے کام کا تذکرہ کروں تو کالم کم پڑ جائے گا۔ ظفر اقبال‘ شہزاد احمد‘ کشور ناہید اور امجد اسلام امجد جیسے لوگ اس میں کام کرتے رہے اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر جو چھوٹی عمر میں بڑا نام کما چکا ہے۔ اس کوتو نت نئے پراجیکٹس اور لیکچرز کروانے سے ہی فرصت نہیں۔ میرے جیسا بندہ تو تنگ پڑ جاتا ہے مگر سچی بات یہ کہ یہ لوگ ادب کے کاز کے ساتھ بہت مخلص ہیں۔ اب ایک عشرت حسین سیاسی عشرت کدے میں بیٹھا عجب قسم کے فیصلے کر دے تو برداشت نہیں ہو سکتے۔ دوسرا ادارہ لغت بورڈ کچھ کم نہیں۔ اس کے سربراہ عقیل عباس جعفری ہمارے دوست ہیں ہر کانفرنس اور ادبی میلے میں وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ تو ہیں ہی ادب کے ملنگ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی ادب ہے وہ ہمارے درمیان بیٹھ کر بھی لغت کی بات کرتے ہیں۔ اگرچہ شاعروں کو لغت کی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ تفنن بر طرف‘ وہ اچھے شاعر بھی ہیں۔ یہ ادارہ اپنی ساکھ اور پہچان رکھتا ہے کہ اس کا کام بے مثل ہے۔ دیکھا جائے تو اردو لغت کا کام جس میں صحیح املا‘ صحیح تلفظ کا کتابچہ کارنامہ ہے۔ بائیس جلدوں پر مشتمل یہ لغت آن لائن بھی ہے۔ اسی حوالے سے برادر عامر خان خاکوانی بھی لکھ چکے ہیں اور راحیل اظہر نے اپنے ’’غبار خاطر‘‘ میں ان کی درست کلاس لی ہے۔ بندہ پوچھے ایک عشرت حسین اٹھ کر ادب کا سارا معاملہ تہسں نہسں کر دے۔ خان صاحب ان لوگوں سے جان چھڑائیں سادگی اور کفایت شعاری کے نام پر دو اداروں کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ اگر بچت ہی کرنی ہے تو عشرت حسین جیسے لوگوں کو فارغ کریں۔ یہ اردو زبان سے دشمنی ہے۔ آپ کو تو اردو زبان کو سرکاری زبان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس قوم پرسب سے بڑا احسان یہی ہو سکتا ہے کہ اس کی قومی زبان کو اس کا ٹھیک مقام مل جائے۔ تعلیم کو اس زبان میں ڈھالا جا سکے اور یہ کام اگر کوئی کر سکتا تو وہ اردو سائنس بورڈ ہی ہو سکتا ہے۔ آنگن میں اردو مہکے گی تو بات بنے گی۔ ایک شعر ذہن میں آ گیا: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے اب اردو لغت کے بعد پنجابی لغت کا بھی ذکر ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے۔ پنجابی میری ماں بولی ہے۔ ظاہر ہے اس سے مجھے محبت ہے۔ کہتے ہیں فرانس کے ایک ہوٹل میں ایک شخص ہر زبان بڑی روانی سے بول رہا تھا۔ بیرے نے اس کا ذکر اپنے مالک سے کیا کہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کی اصل زبان یعنی مادری زبان کون سی ہے۔ مالک نے کہا کہ اس کے اوپر پانی گرا دو تو تمہیں پتہ چل جائے گا۔ جب بیرے نے اس شخص پر پانی گرایا تو وہ یک دم بولا’’اوہ تری دی سی‘‘ مطلب یہ کہ برجستہ اپنی زبان زبان پر آتی ہے۔ پنجابی لغت جو کہ پلاک ادارہ کے زیر سایہ 7جلدوں پر مشتمل ہے ایک کارنامہ ہے۔ پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف نے مدعو کیا کہ اس ڈکشنری کی پذیرائی کے لئے پنجاب کے گورنر چودھری محمد سرور نے گورنر ہائوس میں اہتمام کیا ہے۔ ہم تو چودھری صاحب کی ادب پروری کے پہلے ہی قائل ہیں کہ کئی پروگرام ہم دیکھ چکے ہیں۔ مگر طبیعت کی ناسازی کے باعث خواہش کے باوجود نہ جا سکا۔ سب سے پہلے تو مجھے تحسین کرنی ہے اپنے دوست ڈاکٹر شاہد کاشمیری کی جو سچ مچ ایک درویش ہے کہ ان کی نگرانی میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سب محققین مبارک کے مستحق ہیں۔ اس کے بعد محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت پنجاب جس کے زیر اہتمام یہ ڈکشنری شائع کی گئی۔ اس تقریب پذیرائی کی صدارت ضیا شاہد کی تھی جبکہ مہمان خصوصی چودھری محمد سرور تھے۔ شرکت کرنے والوں میں شاعر ادیب گلو کار اور فنکارغرضیکہ فنون لطیفہ کے لوگ تھے۔ میں حیران ہوں کہ آمنہ الفت بھی وہاں تھیں جو اردو سپیکنگ ہیں مگر پنجابی سے ان کا تعلق یہ کہ ان کے میاں ناصر ادیب نے پنجابی کی سب سے بڑی فلم مولا جٹ لکھی اور وہ خود بھی جٹ ہیں۔ مقررین نے اس لغت کو برصغیر کی سب سے بڑی پنجابی لغت قرار دیا۔منیر نیازی کے دو پیارے سے پنجابی شعر : بے یقین لوکاں وچ بے یقین ہو جاندے سانوں خود پرستی نے شہر توں بچا دتا شاعری منیر اپنی باغ ہے اجاڑ اندر جیویں اک حقیقت نوں وہم وچ لکا دتا