کل ایک نئی بھارتی فلم دیکھی‘بہت صدمہ ہوا‘ یوں کہیے کہ صدمہ تو پہلے ہی تھا‘ تازہ ہوا اور بڑھ گیا۔ فلم کی کہانی آج کے لکھنؤ سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک پرانی ‘ کھنڈر ہوتی ہوئی حویلی میں عمر رسیدہ مرزا صاحب اپنی بیگم اور کرائے داروں کے ساتھ رہتے ہیں۔85سالہ مرزا کو اپنی بیگم کی موت کا انتظار ہے۔ حویلی کی مالکن بیگم صاحبہ ہیں‘ ان کے مرنے کے بعد حویلی مرزا کی ملکیت میں چلی جائے گی اور وہ اسے بیچ کر ایک خوشیوں بھری زندگی کا سپنا دیکھ رہے ہیں۔85سال کی عمر میں بیگم کی موت کا انتظار؟۔جی‘ بیگم صاحبہ مرزا صاحب سے دس سال بڑی ہیں‘ ان کی عمر 95سال ہے اور قاعدے سے انہی کو پہلے مرنا چاہیے۔ ایک دن مرزا صاحب مردانے میں کھڑے تھے کہ زنان خانے سے ایک لڑکی نے آ کر بتایا ‘ بیگم صاحبہ گئیں۔ یعنی مر گئیں۔ مرزا صاحب نے سکون کا سانس لیا‘ خوشی سے ایک مدھم سی کلکاری ماری اور لپک کر بیگم صاحبہ کے کمرے میں گئے تاکہ مرحومہ کا آخری دیدار کر سکیں۔ لیکن یہ کیا۔ وسیع و عریض کمرہ پڑا بھائیں بھائیں کر رہا تھا‘ اس میں کوئی بھی نہیں تھا‘نہ بیگم نہ بیگم کی ذات۔پتہ چلا کہ گئیں سے مراد مر گئیں نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ بیگم صاحبہ بھاگ گئیں‘ اپنے پرانے عاشق کے ساتھ اور جاتے جاتے ایک ’’وصیت نامہ‘‘ چھوڑ گئیں جس میں لکھا گیا تھا کہ انہوں نے حویلی کسی اور کو مبلغ ایک روپے میں فروخت کر دی ہے‘ اب مرزا بے گھر ہو گئے۔ بعدازاں انہوں نے دربدر ہو جانا تھا۔ بیگم صاحبہ کی عمر کا ذکر کئی بار فلم میں ہوا یعنی پچیانوے برس‘ ان کے عاشق کی عمر نہیں بتائی گئی۔ دو نوں میں سے ایک ہی بات ہوتی۔ یا تو ہمِ سن ہو گا یا کم سن۔ ہم سن ہوا تو مطلب وہ بھی 95کا ہو گا یا پھر چھیانوے ستانوے کا اور کم سن ہوا تو پچاس نوے کا۔ بہرحال خاوند کم سن ملا تو عاشق بھی کمسن ہی ہو گا‘ بھاگنے کی عمر تھی بھاگ گئیں۔ عجیب ناقابل اعتبار سی کہانی ہے لیکن امیتابھ بچن (مرزا) کی اداکاری‘ڈائریکٹر کی ہدایت کاری نے اسے قابل اعتبار بنا دیا ہے۔ گلابو شتابو نامی اس فلم کا منظر نامہ‘ مکالمے‘ اداکاروں کی ادائیگی اور لوکشینز کے انتخاب نے اسے کمال کی پختہ فلم بنا دیا ہے۔ اس میں صدمے والی کیا بات ہے؟ کیا بوسیدہ اور اجاڑ حویلی کا اداس ماحول؟85سال کی عمر میں خوشیوں بھری زندگی کی آس؟جی نہیں‘ ایک اور ہی بات صدمہ تازہ کرنے‘ بڑھانے کا سبب بنی۔ جیسا کہ بتایا گیا‘ یہ کہانی آج کے لکھنؤ کی ہے۔ جتنے بھی گھر‘ دفاتر اور عمارتیں دکھائی گئیں‘ سب کے بورڈ ہندی میں تھے یا انگریزی میں۔ اردو کہیں نظر نہیں آئی سوائے مذکورہ حویلی کی نیم پلیٹ کے۔ اس میں اوپر ہندی میں‘ نیچے اردو میں’’فاطمہ محل‘‘ لکھا تھا۔ فاطمہ بیگم صاحبہ کا نام تھا۔ صدمے کی بات یہ تھی اور پھر مزید صدمے کی بات یہ تھی کہ مرزا جب متوقع فروخت کا اشٹام پیپر لکھ رہے تھے تو وہ بھی ہندی میں اور مزید صدمے کی بات یہ کہ فاطمہ بیگم نے بھاگتے ہوئے جو وصیت نامہ لکھا وہ بھی ہندی میں تھا‘ یہاں تک کہ آخر میں انہوں نے جو یہ لکھا کہ فقط تمہاری فتّو تو یہ بھی ہندی میں لکھا۔ یہی حال دہلی کا ہے پرانے محلّوں کے علاوہ کہیں اردو بورڈ نظر نہیں آتے۔ ٭٭٭٭٭ برطانوی راج میں پورے ہندوستان پر اردو کا راج تھا۔پرانے اردو رسائل جن میں بہت سے 1900ء کے آس پاس کے ہیں‘ کے کئی فائل میرے پاس ہیں۔ گاہے گاہے بازخواں کے طور پر ان اوراق پارینہ کو الٹ پلٹ کرتا رہتا ہوں۔ اس زمانے میں سارے کثیر الاشاعت پرچے اردو کے ہوا کرتے تھے‘ ہندی دوسرے نمبر پر۔عالمگیر اور نیرنگ خیال کے پرچے بھارت کے سب سے زیادہ چھپنے والے رسالے تھے۔اردو اخبارات ‘ خواہ ان کے مالک ہندو ہوں‘ یا مسلمان‘ سب سے زیادہ چھپتے تھے۔ ہندوستان کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا ہفت روزہ ریاست اردو میں نکلتا تھا۔بھارتی فلموںمیں اردو زبان استعمال ہوتی تھی۔ اردو صحافت کا گڑھ پنجاب اور یوپی تھے لیکن کلکتہ سے لے کر مدراس تک‘ کوئی بھی بڑا شہر ایسا نہیں تھا جہاں اردو اخبار اور رسالے نہ نکلتے ہوں۔ برما برطانوی نو آبادی تھا جو ہندوستان سے ملحق تھا‘ اس کے دارالحکومت رنگون سے بھی اردو اخبار نکلتا تھا۔ برصغیر کی آزادی کے بعد سے منظر بدل گیا۔ اردو کی جگہ ہندی اور انگریزی نے لیناشروع کی۔ پھر بھی اردو بالادست تھی۔ مجھے اپنے سکول کا زمانہ یاد ہے۔ والد صاحب کئی بھارتی رسالوں کے خریدار تھے جو دلی‘ لکھنؤ ‘ رامپور اور حیدر آباد سے آتے تھے۔ ہندی لکھنا پڑھنا جاننے کے باوجود والد صاحب ان رسالوں سے خط و کتابت کے لئے لفافے پر پتہ اردو میں لکھتے۔ خود میں نے دوسری جماعت میں چند بار بچوں کی کہانیوں کے لئے آرڈر والے خط بھارت بھیجے اور پتہ اردو ہی میں لکھا۔ آج کوئی بھارت خط لکھے تو پتہ انگریزی میں لکھنا ہو گا ورنہ خط لاپتہ ہو جائے گا۔ 65ء کے بعد بھارت میں اردو کے خلاف مہم تیز ہو گئی اور آج اخبارات و رسائل کی حد تک اردو بھارت میں گیارہویں بارہویں نمبر پر آ چکی ہے۔ بنگالی اور مراٹھی کو چھوڑیے ‘ پنجابی (گور مکھی) رسالوں اخباروں کی سرکولیشن اردو جرائد سے زیادہ ہے۔ مشرقی پاکستان میں اردو کا ہنگام تھا۔ بنگالی اور انگریزی اخبار رسالے زیادہ چھپتے تھے لیکن اردو پڑھنے والے بھی کم نہیں تھے۔ دو اخبار اردو کے ڈھاکے سے نکلتے تھے۔ ایک کے مدیر میرے مرحوم سسر تھے۔ آج وہاں اردو صرف بھارتی گانوں کی حد تک رہ گئی ہے۔ اردو پاکستان میں موجود ہے لیکن اس کی شکل بدل گئی ہے اسے ’’ارتقا‘‘ کہیے یا اردو کا نصیبہ۔