سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہم رکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں پھر اس کے بعد میرا جاگنا بھی خواب ہوا یہ زندگی ہے اور زندگی پھولوں کی سیج نہیں مگر میں زندگی کے ہر اک مرحلے سے گزرا ہوں۔ کبھی میں خار بنا اور کبھی گلاب بنا۔ مگر کیا کیا جائے۔ زمینی حقائق اپنی جگہ ہیں۔ نہ اپنا آپ ہے باقی نہ سعد یہ دنیا۔ یہ آگہی کا سفر تو مجھے عذاب ہوا۔ اخبار پڑھیں تو پڑھا نہیں جاتا۔ ادب آداب تو پرانی باتیں ہیں لحاظ اور وضع داری متروک الفاظ ہیں۔ نہ کوئی شخصیت محفوظ ہے اور نہ کوئی ادارہ۔ مگر سوال تو وہی ہے کہ بنیاد ہی میں کوئی اینٹ ٹیڑھی رکھی گئی ہے کہ اب بقول سعدی اس دیوار کو ٹیڑھا ہی جانا ہے۔ کچھ نہ کچھ خرابی تو ہے کہ لمبی لمبی زبانیں منہ سے باہر آ رہی ہیں۔ وہی جو مولانا روم نے کہا کہ: چون عرض آمد ہنر پوشیدہ شد صد حجاب از دل بسوئے دیدہ شد ان کے دل کے پردے آنکھوں پر ضرور آن پڑے کہ سیاستدان کا دل تو ویسے ہی نہیں ہوتا اگر ہو تو پتھر کا ہوتا ہے۔ ویسے اب سیاست صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہی۔ اسی طرح سیاست میں آمریت گھس آئی۔ وہی کہ کوا ہنس کی چال چلا تو اپنی چال بھول گیا۔ اب دیکھئے ناں کہ کیا تماشا لگا ہوا ہے کہ خود رسوا ہونے کے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ سب نے اپنا اپنا تماشا لگا رکھا ہے۔ عوام کی اور ملک کی کسی کو فکر نہیں۔ کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ ملک پر کوئی قابض ہو چکا ہے اور ہمیں بربادی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور قسطوں میں مارا جارہا ہے۔ کبھی پٹرول بم جلایا جاتا ہے کبھی بجلی کے جھٹکے اور گیس چیمبر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ آپ ایک منٹ کے لیے خبریں دیکھیں۔ شرم آتی ہے کہ یہ ہو کیا ہورہا ہے۔ بگڑی ہوئی شہزادی ججز پر حملے کر رہی ہے اور ہدف الیکشن سے فرار ۔ ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ نشانہ کبھی عسکری ادارے تھے تو اب عدلیہ کوئی اچھی بات نہیں: اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے ہر کسی کا کوئی نہ کوئی ٹارگٹ ضرور ہے اور حکومت کا ٹارگٹ عوام ہیں۔ اپوزیشن اول تو ہے ہی نہیں اگر احتجاجی پارٹی کو دیکھا جائے تو وہ بھی ابتری کے سوا کچھ نہیں پھیلا سکی۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا یہ صائب ہے کہ جب چاہیں اسمبلیاں توڑ دیں اور اربوں روپے کا خرچ ملک پر ڈال دیں۔ کیا ہم اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ کیا اسمبلیوں میں رہ کر زیادہ اچھے انداز میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بات میں کررہا تھا ٹارگٹ کی تو وہ سب کے لیے عوام تختہ مشق ہیں۔ ابھی میں پڑھ رہا تھا کہ بلاول جی فرما رہے تھے کہ ان کا مقابلہ بیروزگاری اور غربت سے ہے۔ شاید ایسا نہیں پوری حکومت کا مقابلہ غریبوں اور بیروزگاروں سے ہے۔ دوسرا تنخواہ دار سفید پوش جو تھوڑا بہت ذہن اور دانش رکھتا ہے اسے بری طرح کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔ اب تعلیم کا مقصد بھی فوت ہو گیا کہ غریب کا بچہ جیسے تیسے پڑھ کر معمولی ملازمت حاصل کرلیتا ہے اب ملازمت کہاں کہ اب سرمایہ دار بھی اپنے ساتھ نعرے لگانے والے درباری کھتے ہیں۔ ہزاروں جو سوشل میڈیا پر گند پھیلاتے ہیں تمام اخلاقیات سے وہ بالا ہیں۔ مہنگائی کا مقابلہ بھی وہی کرے گا جو پیسے پیدا کرے گا جیسے تیسے وہ پیٹ کی آگ بجھائے گا۔ شریف آدمی تو مریض بن جائے گا اور اب علاج بھی سستا نہیں مرنا تک مشکل ہو چکا ہے۔ قبرستاان میں بھی امیر لوگ سمائے ہیں۔ مایوسی کی بات نہیں کر رہا۔ سچ مچ ایسی ہی صورت حال ہے۔ میں نے خود دیکھا لوگوں کو ایک انڈا اور ایک کلو آٹا لیتے۔ بے چارے چائے کیا پئیں پائو کا ڈبہ جو تیس روپے کا آتا تھا اب بیس 70 روپے کا ہے۔ تاجروں نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ سبزی والے تک بے رحم ہو گئے ہیں کہ جو جی آئے قیمت مانگتے ہیں۔ کوئی قانون‘ کوئی ضابطہ موجود نہیں اور بنانا سٹیٹ کسے کہتے ہیں؟ جیل بھرو تحریک چلی تو گمان تھا کہ غریب آدمی کا فائدہ ہو سکے گا کہ پارٹی کی طرف سے کچھ مدد اور جیل میں کم از کم کھانا تو دو تین وقت مل جائے گا۔ مگر پولیس والوں کو بھی عجب ہدایات ہیں کہ غریب آدمی کو وہ پکڑتے ہی نہیں۔ پولیس والے بھی تو اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔ کہ ان سے کیا ملنا ہے سوائے بدبو اور مغلظات کے۔ ویسے یہ چال غلط تھی کہ آپ رانا ثناء اللہ سے کچھ اخلاقیات کی توقع کریں۔ جو بھی ہے حکومت آئی ایم ایف کی مدد کر رہی ہے کہ عوام سے ایسے خون نچوڑا جارہا ہے جیسے بھارت سے کیکڑوں کو شکنجے میں کس کر نیلا تیل نکالتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ جن کو باہر رہ کر پی ٹی آئی کے لیے احتجاج کرنا تھا وہ خود ہی حکومت کے قابو میں آ گئے۔ وہ جو قومی اتحاد کی تحریک تھی اس کے پیچھے مذہب کی طاقت تھی۔ وہ تو جیسے کفر کے خلاف جنگ سمجھی جا رہی تھی۔ عقیدت اور عقیدے میں بہت زور ہوتا ہے کہ کوئی موت کوبھی گلے لگانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ یہ تو بانگے سے لوگ ہیں نئے دور کے نمائندہ دوسری بات ۔ مگر حقیقت ہے کہ رہنما ہمیشہ آگے ہوتا ہے۔ قاضی حسین احمد کو دیکھا کہ ان پر لاٹھیاں برستی تھیں۔ ادھر ایک ڈار صاحب ہیں جو بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے تھے اب دبئی جا بیٹھے ہیں اور ایک ادارہ ان کے پیچھے ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کی طرح بھی سخت جان نہیں۔ میرا خیال ہے کہ کالم سمیٹ دیں۔ ایک شعر کے ساتھ: بحر رجز میں ہوں نہ میں بحر رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں