دنیا کی ہر بیٹی کی طرح اللہ بختاور بھٹو زرداری کے بخت کو بلند کرے۔ گذشتہ ہفتے اس کی منگنی عام طور پر ملکی میڈیا اور خاص طور پر سندھ کے سوشل میڈیا پر چھائی رہی۔ منگنی کی وہ تقریب بہت بڑی تھی جس میں مہمان بہت کم تھے۔ اس دن زرداری خاندان کے مخالفین کو بھی اس بات کا افسوس ہو رہا تھا کہ اس دن بختاور کے ساتھ اس کی ماں نہیں تھی۔ ایک لڑکی کی زندگی میں سب سے بڑا دن اس کی رشتے کا ہوتا ہے۔ اس دن لڑکی چاہتی ہے کہ اس کے سارے رشتے اس کے قریب ہوں۔ وہ انہیں دیکھے۔ وہ ان کو دیکھیں۔ خاص طور پر جب اس دن اس کے قریب اس کی ماں نہ ہو تو وہ بھرے آنگن میں بھی خود کو اکیلا محسوس کرتی ہے۔ اس دن بختاور بہت تنہا تھی۔اس دن اس کا بھائی کورونا کی وجہ سے اس کی خوشی میں شریک نہ ہو سکا۔ اسی گھر میں ہونے کے باوجود وہ اپنی بہن کے پہلو میں نہیں تھا اور اس کے والد آصف زرداری بھی صحت کی وجہ سے مہمان خصوصی کی طرح آئے اور فوٹو سیشن کے بعد چلے گئے۔ حالانکہ وہ میزبان تھے۔ مگر ان کی صحت نے انہیں اجازت نہ دی کہ وہ بیٹی کی منگنی میں آنے والے مہمانوں سے ملتے۔منگنی کی یہ تقریب کتنی اداس تھی۔ حالانکہ میڈیا بار بار یہ الفاظ دہرا رہا تھا کہ برسوں کے بعد بلاول ہاؤس میں خوشیاں آئیں تھیں۔ وہ بلاول ہاؤس جہاں ہمیشہ نعرے لگتے ہیں، اس دن وہاں غیرسیاسی گیت گونج رہے تھے۔ شادی بیاہ کے گیت۔ خوشیوں اور دعاؤں والے۔ ان گیتوں میں مسکراتی لڑکی بہت اکیلی تھی۔ اس لڑکی کے پاس دولت تھی۔ طاقت تھی۔ حکومت تھی۔ مگر وہ رشتے نہ تھے جن کے بغیر زندگی بہت سونی سونی محسوس ہوتی ہے۔ بانو قدسیہ نے اپنے مشہور ناول میں ’’راجہ گدھ‘‘ میں لکھا ہے کہ والدین کی غلطیوں کی سزا بچوں کے حصے میں آتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ بختاور جہاں سے کھڑی ہوتی تو شاید بغیر مقابلے کے جیت جاتی مگر اس نے تو کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ آصف زرداری نے بہت کوشش کی کہ کسی طور پر اپنے سارے بچوں کو سیاسی بنائے۔ شروع میں تو بلاول کی بھی سیاست میں دلچسبی نہیں تھی۔ مگر جس طرح شیکسپیئر نے لکھا ہے کہ ’’عظمت کی ایک قسم وہ بھی ہوتی ہے جو انسان پر مسلط کی جاتی ہے‘‘ اسی طرح بلاول پر سیاست مسلط کی گئی ہے اور ایک فرمان بردار بیٹے کی طرح اس نے والد کا فیصلہ تسلیم کرلیا۔ وہ سمجھ گیا کہ بھلے اس کے پاس دولت کی کمی نہ ہو لیکن سیاست سے کمائی ہوئی دولت کا تحفظ بھی سیاست ہی کرسکتی ہے۔ اس لیے وہ دل کے ارمان دل میں دبا کر والد کے فیصلے پر عمل پیرا ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ سیاست اور صحافت کی لت لگ جائے تو پھر انسان مجبور ہو جاتا ہے۔ بلاول تو اب ملک کا جانا مانا سیاستدان ہے۔ اور جہاں تک آصفہ کی بات ہے تو وہ چھوٹی بیٹی ہونے کے ناطے سے والد سے بہت محبت کرتی ہے۔ وہ عام طور والد کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہے۔ ہسپتالوں میں، عدالتوں میں،سٹیج پر، جب آصف زرداری آصفہ سے کچھ کہتے ہیں تو وہ اچھی بیٹی کی طرح وہ بات مان لیتی ہے۔ حالانکہ اس کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر آصف زرداری جب کہتے ہیں کہ آصفہ بلاول کا آواز بنے گی تو وہ انکار نہیں کرتی۔ آصف زرداری کے سارے بچوں میں بختاور وہ واحد بچی ہے جس نے سیاست کرنے سے صاف انکار کیا اور آج تک وہ اپنے اس فیصلے پر قائم ہیں۔ وہ آج بھی سینیٹر بن سکتی ہے مگر وہ سیاست کے جھنجھٹ میں پڑنا نہیں چاہتی۔ اس لیے وہ اس دنیا سے ہمیشہ دور رہی جس دنیا نے اس سے اس کی والدہ چھین لی ۔ جس سیاست کی وجہ سے انہیں دولت اور شہرت تو ملی مگر اپنوں کی محبت سے وہ ہمیشہ محروم رہی۔ آصف زرداری کے ذہن میں کچھ بھی ہو مگر اس کے بچے اپنی ماں کی وجہ سے اگر اپنے نام سے ’’بھٹو‘‘ کا لفظ جوڑ کر چلتے ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انہیں اپنے ماں کے خاندان سے خاص لگاؤ ہے۔ وہ اگر اپنے نانا کی بات کرتے ہیں تو کیا انہیں اپنے ماموں کی یاد نہ آتی ہوگی؟ کیا ستر کلفٹن اور بلاول ہاؤس میں بہت دوری ہے؟ یہ فاصلہ تو ایک کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ مگر یہ فاصلہ آج تک طے نہیں ہو سکا۔ کیا ایک عام اور گھریلو قسم کی لڑکی یہ نہیں چاہے گی کہ اس کی منگنی میں اس کے ماموں کی بیٹی ہو اس کا بیٹا ہو۔بلاول ہاؤس میں دور دور سے آئے ہوئے مہمان آئے مگر وہ اپنے نہ آ پائے جن کا گھر بہت قریب تھا۔ زرداری خاندان خود کو بھٹو خاندان کہلوائے تو یہ ایک سیاسی عمل ہوگا۔ خاص طور پر اس صورت میں جب حقیقی بھٹو خاندان موجود ہو۔ یہ سچ ہے کہ بختاور آصف زرداری کی بیٹی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ بختاور بینظیر کی بیٹی ہے۔ وہ بینظیر جس کی وجہ شہرت بھٹو خاندان ہے۔ وہ بھٹو خاندان جو بینظیر بھٹو کے بعد اس کی بیٹی کے رشتے کی تقریب میں شریک نہ ہوا۔ حالانکہ پیپلز پارٹی میں موجود بہت سارے سینئر لوگ دلی طور پر چاہتے ہونگے کہ بینظیر بھٹو کی بیٹی کی خوشی میں حقیقی بھٹو خاندان موجود ہو۔ اس کی منگنی کی رسم میں ذوالفقار بھٹو ڈ(جونیئر) بھی ہوں اور وہ فاطمہ بھٹو بھی ہوں جو عالمی سطح کی ادیب اور دانشور بن چکی ہے۔ اگر وہ سب ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ یہ حسرت پیپلز پارٹی کے جن لوگوں کے دلوں میں تھی انہیں بھی اس محدود تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔یہ تقریب بہت خاص تھی۔ یہ امیر لوگوں کی تقریب تھی۔ ان امیر لوگوں میں ایک اداس بچی اپنی بچھڑی ہوئی ماں کو بہت تلاش کرتی رہی۔ ماں کا درجہ تو کوئی نہیں لے سکتا مگر کہتے ہیں کہ ماں کی کمی کو پورا کرنے کی رسم خالہ کی صورت ادا ہوتی ہے۔ بختاور بھٹو زرداری کی منگنی میں اس کی اکیلی خالہ صنم بھٹو بھی موجود نہ تھیں۔ وہ نہ صرف جسمانی طور پر موجود نہ تھیں بلکہ انہوں نے اپنی بھانجی کی تقریب میں ورچوئل شرکت بھی نہیں کی۔ حیرت کی بات ہے کہ ملکی میڈیا میں یہ سوال نہیں اٹھا کہ بختاور کی منگنی میں ان کی ماں کی بہن اور بھٹو صاحب کی واحد زندہ اولاد شریک نہ ہوئیں۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ ’’کیوں؟‘‘ کیا ان کی کمی کو کسی نے محسوس نہیں کیا؟ حالانکہ وہ بھٹو خاندان کی واحد غیر سیاسی فرد رہی ہیں اور جب بینظیر شہید ہو ہوئیں تب صنم بھٹو ماں کی طرح بینظیر کے سارے بچوں کو گلے سے لگایا تھا۔ اس دن تو صنم بھٹو کو ہر صورت میں موجود ہونا تھا۔ آخر ایسا کیا سبب تھا کہ صنم بھٹو نے اپنی بھانجی کی خوشی میں شرکت نہیں کی؟ اور ایسا کیا سبب تھا کہ جو سبب بلاول ہاؤس نے بھی نہیں بتایا کہ اس سبب کی وجہ سے صنم بھٹو بختاور کی منگنی کی تقریب میں شریک نہ پائیں۔