پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما شریف خاندان کے معتمد خاص رانا مشہود کے اس بیان نے کہ’’اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ‘‘ کے درمیان ڈیل ہو گئی ہے‘صبح ہوئی یا شام ہوئی۔۔۔ نے سارے ملک میں ایک طوفان کھڑا کردیا ہے۔رانا مشہود کا یہ انکشاف اور پھر حسبِ روایت ’’یوٹرن‘‘ اور اس پر پارٹی قیادت اورفوج کے ترجمان کے شدید رد عمل نے رانا صاحب کے اس معنی خیز بیان پر مزید سوال کھڑے کردئیے ہیںکہ محاورے کی زبان میں دال میںبہت نہیںتو کچھ کالا ضرور ہے۔ ۔ ۔ یقین کریں تین دہائی سے صحافت، سیاست اور تاریخ کا طالب علم ہوں مگر پاکستانی سیاست میں دہائیوں سے اس مشہور ِزمانہ بلکہ بدنام زمانہ اصطلاح ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے بارے میں میری معلومات انتہائی غریبانہ ہیں۔انگریزی کی مستند ڈکشنری سے رجوع کیا تو اس کے اردو میں لغوی معنی ’’ادارہ، محکمہ ، حاکمہ،سررِشتہ‘‘ درج ہیں۔مگر وسیع تر سیاسی اصطلاح میں دیکھا جائے تو قطعی طور پر اس کے مطلب و معنی اتنے سادہ نہیںکہ قیام پاکستان سے آج تک اگر وطن عزیز میں ’’پتہ‘‘ بھی ہلتا ہے تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔قیام پاکستان کے کم از کم ایک سال تک جب تک بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات نہیںہوئی تھی۔۔۔یقینا اگر کوئی اتھارٹی اور اسٹیبلشمنٹ تھی تو وہ بانی پاکستان کی ذات ہی تھی۔مگر بدقسمتی سے ایک نوزائیدہ ملک کے بانی کی اتنی جلد ناگہانی وفات نے۔ ۔ ۔وطن عزیز کے ابتدائی دنوں میںہی پاکستانی ریاست کو ایک ایسے بحران سے دوچار کردیا جس سے 70سال بعد یہ بدقسمت ملک باہر نہیں نکل پارہا۔پڑوسی ملک بھارت کی مثال دیتے ہوئے ہمیشہ گریز کرتاہوں کہ یوں بھی یہ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کا بھارت نہیں رہا ۔ ۔ ۔ مگر ہندوستان کی آزادی کے بعد کم و بیش تیرہ سال تک جواہر لال نہرو نے ایک ایسے جمہوری سسٹم کی بنیا د رکھ دی جس میں مستقبل کے بھارت میں کلیدی کردار سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کاہی رہا۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت تک آتے آتے قائد اعظم کے پاکستان میں جمہوری اداروں کی بساط لپٹنا شروع ہوگئی تھی۔اور پھر 1954ء میںپہلی دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے بعد تو جمہوری اداروںکے تابوت میںایسی کیل ٹھونکی گئی کہ معذرت کیساتھ پاکستانی جمہوریت آج تک اُسی تابوت میں قیام پذیر ہے۔یہی وہ دور تھاجب انگریز کے درپردہ آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان اور سیکرٹری دفاع سکندر مرزاکے درمیان ایک ’’گٹھ جوڑ‘‘ہو ا جس کا مقصد پاکستانی ریاست پر بتدریج اپنے پنجے گاڑنا تھا۔یقین سے تو نہیں مگر امکانی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ایوب خان ،سکندر مرزا ،گٹھ جوڑ کی صورت میںہی ایک invisibleیعنی غیر مرئی قوت سامنے آئی جسے معروف معنوں میں ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘کا نام دیا گیا۔بلکہ 26اکتوبر 1958ء کو پاکستان میں جو پہلے مارشل لاء کا پودا لگا۔ ۔ ۔ جس سے کہا جاسکتا ہے کہ ایک بامعنی ، باعمل اسٹیبلشمنٹ کا وجود عمل میں آیاجس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پاکستانی ریاست پر بالادستی، سیاسی جماعتوںاور سیاستدانوں کی نہیں سویلین،ملٹری نوکر شاہی کی ہوگی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور سکندر مرزا کو اس سویلین ،ملٹری نوکر شاہی کا سرخیل کہا جاسکتا ہے۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اصلی تے وڈی اسٹیبلشمنٹ کے نفس ناطقہ جنرل محمد ایوب خان ہی ٹھہرائے جائیںگے۔ ۔ ۔ جنہوں نے دو ہفتے بعد ہی 1956ء کے آئین کے تحت منتخب ہونے والے صدر مملکت اسکندر مرزا کو چلتا کردیا۔ یوں 1958ء سے 1968ء تک پورے دس سال ایوبی اسٹیبلشمنٹ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان پر راج کیا۔ ایوبی آمریت کے قصیدہ خواں ایوبی دور آمریت کو پاکستانی تاریخ کا معاشی و سیاسی طور پر سنہری دور قرار دیتے ہیں۔مگر یہی وہ دور تھا جب اس غریب ملک کی ساری دولت 22امیر گھرانوں میں سمٹ آئی اور پاکستانی سیاست جی ایچ کیو کی ’’لونڈی ‘‘بن گئی۔یقینا اس کی ساری ذمہ داری اُن سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جو پورے ایوبی دور میں اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ چاٹتے رہے۔مگر قدرت کا نظام ہے کہ ہر عروج پرزوال آتاہے۔ آمریت اور حاکمیت اگر تمام حدیں پھلانگ جائے ،جبر ناقابل برداشت ہوجائے تو پھر اسی میں سے روشنی کی کرن پھوٹتی ہے۔شاعرعوام حبیب جالب ؔ کی مشہور زمانہ نظم ’’دستور‘‘محض مزاحمتی شاعری کا شاہکار نہیںتھی۔ ۔ ۔مگر ایک ایسی چیخ تھی۔ ۔ ۔ ایک ایسا نعرہ تھی جس نے ’’ایوبی سویلین،ملٹری اسٹیبلشمنٹ ‘‘کو ہلا کر رکھ دیا۔ اور پھر بہر حال جس کا عَلم اور پرچم جنرل ایوب خان کے ہی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھایا۔ ۔ ۔ یہاں تک پہنچا ہوں تو شاعر عوام حبیب جالبؔ کی نظم کو چھوڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتاکہ پھر اس کے آگے’’اسٹیبلشمنٹ‘‘کے حوالے سے جو موضوع چھیڑا ہے وہ ایک نہیں ۔ ۔ ۔کم از کم دو تین کالموں کا متقاضی ہے۔تو پھر چلتے چلتے ۔ ۔ ذرا اس تاریخی نظم سے لطف اندوز ہوںجس کے بارے میں ایوبی آئین کے خالق مشہور قانون دان میا ںمنظور وقار نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ اس نوجوان شاعر کی نظم کے بعد ہمارا آئین نہیں چلے گا ۔ ۔ ۔ کہ موچی دروازے پر جب جالب نظم دستور پڑھ رہا ہوتا ہے تو اُس کے ساتھ لاکھوں کا مجمع کورس کی شکل میں یہ نظم پڑھ رہا ہوتا ہے۔ دیپ جس کا محلات ہی میں جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیںجانتا میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے میں بھی منصو ر ہوں کہہ دو اغیار سے کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے ظلم کی بات کو جہل کی رات کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو اس کھلے جھوٹ کوذہن کی لوٹ کو میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں چارہ گر درد مندوں کے بنتے ہو کیوں تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا (جاری ہے)