غزہ میں اسرائیل کی بربریت اور وحشیانہ جارحیت نے ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ اس موقع پر بین الاقوامی برادری اور مسلم امہ کی بے حسی بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ نہتے فلسطینی اپنا دفاع پتھروں سے کر رہے ہیں جبکہ اسرائیلی گولہ بارود‘ ٹینک اور جنگی جہاز ان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں یہ تمام مناظر پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اسرائیلیوں کا یہ اقدام جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اسرائیلی ٹینک غزہ میں داخل ہونے کے لیے تیار کھڑے ہیں اور ابھی تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا باضابطہ اجلاس بھی شروع نہیں ہو سکا۔ شدید بمباری سے فلسطینی لوگوں کے گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ 160 کے قریب جنگی جہاز فضائی حملوں میں مصروف ہیں‘ سات دہائی قبل اسرائیل کی ریاست جوکہ ناجائز طور پر وجود میں لائی گئی تھی اس امر کا اعتراف خود اسرائیل کے بانی اور اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان کر چکے ہیں کہ اگر میں عرب لیڈر ہوتا تو اسرائیل کیلئے کبھی بھی کوئی سمجھوتہ نہ کرتا‘ یہ اصل حقیقت ہے کہ ہم نے ان سے ان کا ملک چھینا‘ اگرچہ یہ درست ہے کہ ہمارا تعلق اسرائیل سے ہے لیکن یہ بات دو ہزار سال پرانی بات ہے اب فلسطینیوں کا اس سے کیا واسطہ‘ دنیا میں یہودی مخالف تحریک‘ ہٹلر‘ نازی اور آتش وٹز بیشک رہے ہیں مگر اس کے ذمہ دار فلسطینی ہرگز نہیں ہیں‘ ہم نے ان کی سرزمین پر آ کر ان کی سرزمین پر قبضہ کرلیا‘ آخر وہ اس چیز کو کیونکر تسلیم کریں گے؟ ڈیوڈ بن گوریان کے ان خیالات کو پروفیسر اسٹیفن والٹ نے اپنی کتاب دی اسرائیل لابی اینڈ بوریس فارن پالیسی میں بڑے نمایاں طور پر شائع کیا ہے‘ اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ عالمی طاقتیں مسلسل اسرائیل کی پشت پناہی کرتی چلی آ رہی ہیں اور پھر عرب ممالک نے برابر امریکہ کہ اپنی سرزمین پر فوجی اڈے بھی دے رکھے ہیں کیونکہ ان ممالک میں بادشاہت ہے اور حکمران امریکہ کے زیر سایہ رہ کر اپنا اقتدار مضبوط بنائے رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی اسرائیل کو بھی اپنی سرزمین پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر رسائی بھی دیتے ہیں۔ حال ہی میں چند اسلامی ریاستوں اور عرب ممالک نے باضابطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ غزہ میں اسرائیل آگ و خون کی جو ہولی کھیل رہا ہے اس کے جواب میں فوری طور پر عرب اور مسلم ریاستیں روابط کو ختم کرنے کا اعلان کردیتیں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک ان ممالک کی جانب سے کوئی احتجاجی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا جبکہ برطانیہ اور امریکہ کے بڑے شہروں میں اسرائیل کے مظالم کے خلاف عوام کا شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ لندن کی سڑکوں پر بھی برطانوی شہری اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاجی مارچ کررہے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے خاص طور پر فلسطینی مسجدوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت اگر اسی طرح جاری رہی تو یہ المیہ گھمبیر صورت حال اختیار کر جائے گا اور خدشہ اس بات کا ہے کہ بڑے پیمانے پر ایک بڑی جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اسرائیل کی اس جارحیت کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو آگے آنا اور اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فلسطین میں پائیدار امن کا قیام اس وقت تک ناممکن ہے کہ جب تک اسرائیل اپنی ریاستی دہشت گردی کی پالیسی ترک نہیں کرتا‘ عالمی سطح پر سفارتی محاذ گوکہ اپنی سرگرمی دکھا رہے ہیں جن میں ترک صدر جب طیب اردوان اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو مل کر اسرائیل کو سبق سکھانا چاہیے۔ فلسطین میں اسرائیل کی بربریت اس امر کا تقاضا کر رہی ہے کہ اب ہر طرح سے فلسطینی عوام کی مدد کی جائے‘ وقتی جنگ بندی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے عالمی طاقتوں کو اپنا رویہ بدل کر آزاد اور خود مختار فلسطین کے قیام کے سلسلے میں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس ضمن میں ترکی کے علاوہ جن ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ان میں سعودی عرب‘ پاکستان‘ ایران اور متحدہ عرب امارات سرفہرست ہیں۔ اسرائیل کی مسلم دشمنی اس حد بڑھ چکی ہے کہ اب اسرائیل بھارت اور افغانستان تک اپنی رسائی یقینی بنا چکا ہے۔ اسرائیلی موساد نے بھارت میں اپنے نیٹ ورک کو وسیع کر رکھا ہے اور یہ نیٹ ورک افغانستان میں بھی سرگرم ہے۔ پاکستان کی ایٹمی قوت کسی طور پر بھی نہ تو مغربی طاقتوں اور نہ ہی اسرائیل کو ہضم ہورہی ہے۔ خاص طور پر اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے خوفزدہ ہے۔ ذرا اس امر سے اندازہ لگائیں کہ 1982ء کی دہائی میں اسرائیلی ڈیفنس فورس اور اسرائیلی بارڈر گارڈ نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ اسرائیل میں ایک ریفیوجی کیمپ میں بچوں کے پلاسٹک کے کھلونے پکڑے گئے ہیں جوکہ پاکستان کے تیار کردہ ہیں یہ کھلونے ٹائم بم کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ دوسری جانب ذرا اس ناجائز ریاست اسرائیل کی ڈپلومیسی ملاحظہ فرمائیں کہ اسرائیل نے واشنگٹن ڈی سی‘ کینیڈا‘ مغربی جرمنی اور آسٹریلیا میں اپنے سفارت خانوں میں موساد کے بڑے بڑے نیٹ ورک قائم کر رکھے تھے اسی طرز کا ایک نیٹ ورک لندن میں اسرائیل کے سفارت خانے میں بھی قائم کیا گیا تھا۔ یہ 17 جون 1988ء کا واقعہ ہے کہ جب برطانیہ میں وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کا دور حکومت تھا برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 اور ایم آئی 5 نے یہ نیٹ ورک پکڑا جوکہ سفارت کاروں کے قتل‘ اغوا اور دیگر دہشت گردی کی وارداتوں میں مصروف تھا اس انکشاف کے بعد برطانوی حکومت نے اسرائیل کے 5 سفارت کاروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر برطانیہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ فلسطینیوں پر جبر اور ظلم کی انتہا ہو چکی ہے جب تک دنیا کے مہذب معاشرے اسرائیل کی دہشتگردی کے خلاف محتد ہو کر آواز بلند نہیں کریں گے یہ ناجائز ریاست پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کا باعث بنتی رہے گی۔ مغربی طاقتوں کو اب سوچنا ہوگا کہ عوام کی بھاری اکثریت اب اسرائیل کے مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکل رہی ہے اورآہستہ آہستہ یہ لاوا پک رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کا احتجاج اپنے حکمرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے ۔ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی مغربی طاقتیں دنیا میں امن و سلامتی قائم رکھنا چاہتی ہیں اور دنیا کو ایک اور عالمی جنگ سے بچانا چاہتی ہیں تو فلسطین میں بربرشت اور ظلم و تشدد بند کروانے میں اپنا عملی کردار ادا کریں۔