عام تاثر یہ ہے کہ کینیڈا بین المذاہب ہم آہنگی کے اعتبار سے ایک مثالی ملک ہے اور وہاں اسلاموفوبیا سے منسلک واقعات پہلے نہیں ہوا کرتے تھے۔لیکن کینیڈین صوبے اونٹاریو کے شہر لندن میں ہونے والے ولدوزسانحے سے قبل پیش آیا 2020ء میں ایک مسلم رضاکارکے قتل کاواقعہ جبکہ 2017ء میں کیوبک صوبے کی مسجد میں پیش آئے دہشت گردی کے واقعات سے اب کینیڈین مسلمان تشویش اورخوف وہراس میں مبتلاہیں 6جون 2021ء کو دہشت گردی کے واقعے کے بعد ایسی کینیڈن مسلم خواتین میں اداسی چھائی ہے۔ اگرچہ وہ پہلے بھی خوف کی کیفیت محسوس ہورہی تھی ۔ برطانیہ کے ایک نشریاتی ادارے نے حال ہی میں ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے جس میں واضح طور پربتایاگیاکہ ’’ہم نے کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو میں مقیم چند حجاب پہننے والی پاکستانی نژاد خواتین سے بات کی، اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کینیڈا میں حجاب پہننے والی مسلمان خواتین کو کن مشکلات کا سامنا ہے۔توان میں سے ایک مسلم خاتون نے بتایاکہ مجھے ڈر تھا کہ وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر میرا حجاب نہ کھینچ لے ،میں سوچ رہی تھی کہ میں بس ڈرائیور سے کتنا دور بیٹھی ہوئی ہوں، تھوڑا قریب بیٹھ جاؤں کہ وہ دیکھ لیں کہ میرے ساتھ ایسا حادثہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایاگیاکہ گذشتہ چند برسوں سے کینیڈا میں مقیم پاکستانی نژاد عائشہ ناصر معمول کے مطابق اپنے دفتر سے گھر کے لیے جانے والی بس پر بیٹھی تھیں کہ اچانک ان کے پیچھے بیٹھی ہوئی ایک خاتون چلانے لگیں کہ ان مسلمان خواتین کے حجاب پہننے سے خواتین کی تحریک کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔عائشہ کہتی ہیں کہ یہ بات کسی نے مجھے انٹرنیٹ پر نہیں کہی تھی، بلکہ ایک چلتی بس میں میرے ساتھ سفر کرنے والی خاتون نے کی تھی۔ یہ صرف ایک میرے ساتھ ہی نہیں ہوا، یہ کینیڈا کی حقیقت ہے۔ رپورٹ میں بتایاگیاکہ کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کے شہر ہیملٹن میں مقیم عائشہ ناصر اس ملک میں گذشتہ تین سال سے مقیم ہیں تاہم جب بھی وہ گھر سے باہر جانے لگتی ہیں تو ان کے ذہن میں بہت سارے خدشات منڈلانے لگتے ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ جب میں باہر جاؤں گی تو مجھے کوئی ایسے دیکھے گا جو عجیب سی نظر ہو گی، جیسے میں نے کچھ غلط پہنا ہوا ہے یا غلط کیا ہے۔ واضح رہے کہ شہرلندن میں اسلاموفوبیاکے واقعے کے بعد کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک پریس کانفرنس کے دوران لندن میں ہونے والے واقعے کی مذمت کی تھی اور اسے ایک دہشتگرد حملہ قرار دیا تھا۔ تاہم جب ان سے صوبہ کیوبیک میں زیرِ بحث بل 21 کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کے خاتمے سے انکار کیا۔ بل 21 دراصل صوبہ کیوبیک میں حکومتی اہلکاروں کو کام کے دوران مذہبی علامات پہننے سے روکتا ہے۔ یعنی اگر کوئی حجاب پہننے والی مسلمان خاتون اس صوبے میں سرکاری نوکری کرنا چاہے تو اسے کام کے اوقاتِ کار میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سیما سلیم لندن، اونٹاریو میں ہی مقیم ہیں اور ان کے گھر سے جائے وقوعہ محض چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔انھوں نے انٹرویو کے دوران افضال فیملی کو یاد کیا اور بتایا کہ جب اچانک ایک ہی خاندان کے چار افراد جنھیں آپ جانتے ہوں، ان سے مل چکے ہوں، اس دنیا سے چلے جائیں ۔ہم شدید صدمے میں چلے گئے تھے۔سیما کہتی ہیں کہ ان کے دل کے کسی کونے میں خوف ضرور موجود ہے لیکن وہ اس جگہ بھی جا چکی ہیں اور روزانہ چہل قدمی بھی کرتی ہیں تاکہ دہشتگرد کو اس کے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ سیما مقامی طور پر دوسرے مذاہب کی جانب سے ایسے موقع پر ساتھ دینے کے حوالے سے بھی بات کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس مشکل گھڑی میں جس طرح دیگر مذاہب کے افراد ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے اور جیسے کینیڈا کے وزیرِ اعظم نے اسے دہشتگردی کا واقعہ کہا، ہمیں اس حوالے سے بہت خوشی ہے۔