لاکھ ملتے ہیں ہم بہانے سے پیار چھپتا نہیں چھپانے سے عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے مجھے اس چیز کا احساس کہ محبت چھپ نہیں سکتی‘ اس وقت ہوا جب میں بلاول کی کانفرنس سن رہا تھا۔ کیا انداز ہیں اور کیا تیور ہیں‘ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ وہ اچھا بولنے لگے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک ان کے جذبات ان کی زبان پر حاوی ہیں۔ میں مذکر مونث میں نہیں پڑوں گا کہ یہ لسانی مسائل ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ ہمارا دوست خبیب خاں کہا کرتا تھا کہ’’ ہماری مسئلہ یہ ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ مو نث کونسا ہے اور مذکر کونسی ہے‘‘۔ میں تو یہ دیکھتا ہوںکہ بات کیا کہی جا رہی ہے۔ فرزند زرداری کی باتیں تو معرفت کی تھیں۔ اظہار مجاز سے حقیقت خودبخود آشکار ہور ہی تھی۔ ایسے ہی ن لیگ کا خیال آ گیا تو پھر ایک استاد کا شعر بھی یاد آ گیا, جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پروہ حیا یک لحظہ آئی اور شباب آہستہ آہستہ پتہ نہیں ساتھ ہی استاد پرواز کا شعر بھی کانوں میں گونجنے لگا کہ کئی مشاعروں میں ان سے سنا کہ وہ کس قدر سادگی سے وہ پڑھتے تھے: خطائوں کی چبھن فوراً کہاں محسوس ہوتی ہے ندامت کی طرف آتا ہے دل آہستہ آہستہ یہ تو مگر صاحبان دل کی بات ہے ہم تو سیاست پر لکھ رہے ہیں کہ جہاںاس احساس کا گزر نہیں‘ اس طرح یہ شعر تو غیر متعلقہ محسوس ہوتا ہے۔ واقعتاً سیاست حکمت و دانائی ہے۔ آپ بلاول کے رمز و کنایہ پر ذرا غور کریں تو ہائے ہائے یہ سادگی و پر کاری۔ فرما رہے ہیں کہ اس وقت صرف پیپلزپارٹی ہے جو ا کیلی اپوزیشن کے منصب پر ڈٹ کر کھڑی ہے بلکہ یوں کہیں کہ کلمہ حق بلند کر رہی ہے۔ جہاد اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ لفظ ذرا بوجھل اور ان کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ وہ فرما رہے ہیں کہ آر پار کی سیاست نہیں بلکہ ٹھنڈے دل سے فیصلے کرنے ہوں گے۔ کیا کمال کا اختراعی اور تخلیقی جملہ انہوں نے کہا کہ ان کے دوست اپوزیشن کی اپوزیشن کر رہے ہیں۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن حکومت کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور سب مل کر اس سیلاب کو روکنا چاہتے ہیں جو پیپلزپارٹی لانا چاہتی ہے: عجیب شعبدہ بازی ہے کار دنیا میں محال کچھ بھی نہیں ہے محال کیا کچھ ہے دوسری طرف ن لیگ اور پی ڈی ایم کے لوگ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہوا کیا۔ وہ تو ہونے والی فریب کاری کی حیرت سے نہیں نکلے۔ ویسے ان کی دانش پر حیرت ہوئی ہے کہ اس بات کا کہ ساری دنیا کو علم تھا یہ نوازشریف کی سمجھ میں آئی اور نہ مولانا فضل الرحمن کو۔ ہو سکتا ہے مولانا کو معلوم ہو مگر وہ اپنی صدارت بحال رکھنا چاہتے تھے یا پیپلزپارٹی سے اپنی پرانی رفاقت اور تعلق بھرم رکھ رہے تھے۔ سب کو معلوم تھا کہ پی ڈی ایم میں سے ایک جماعت کو نکلنا ہے۔ زرداری بے گناہی تو پہلے ہی ثابت ہو چکی تھی۔ ان کی مدد سے سنجرانی آئے اور پھر ایک جھٹکا خان صاحب کو دیا گیا اور ایک مرتبہ پھر یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ اپوزیشن میں لیڈر لایا گیا۔ تصویر تو مکمل ہو چکی۔ کسی ایک چیز کی بھی کمی نہیں ہے۔ اب اس تصویر میں رنگ بلاول بھر رہے ہیں: کوا لایا دال کا دانہ اور چڑیا لائی چاول کا دانہ کھانا پکایا چڑیا نے پر‘ کوا کھا گیا سارا کھانا یہ کوئی شعر نہیں ہے ایک بچے کی تک بندی ہے۔ آپ اسے موجودہ سیٹ اپ پر دیکھیں۔ پیپلزپارٹی کلمہ حق کے لیے پر تل گئی ہے کہ شاید اسے اجازت مل گئی ہے۔ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ پیپلزپارٹی کا وفاق کے لیے کردار بڑھا نے کا سوچا جارہا ہے مگر پیپلزپارٹی کا کردار ہی آڑے آ جاتا ہے۔یعنی استعفوں کا معالمہ پھر لٹک گیا۔ یہ سب ایک فضول سی کارروائی ہے یا حربے ہیں۔ بنیادی حقیقت یہی ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی منزل پا چکی ہے۔ دوسرے لفظوں میں بے نظیر کو ملنے والے این آر او کی بازگشت اب بھی موجود ہے۔ اظہار شاہین نے کہا تھا: کوہساروں کا فیض ہے ورنہ کون دیتا ہے دوسری آواز باقی کورونا نے حکومت کو مصروف بھی کر دیا ہے اور سٹیبل بھی۔ فی الحال اس صورتحال نے پی ڈی ایم کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔ پیپلزپارٹی کو شوکاز مل چکا ہے۔ ہر ایک فارمیلٹی ہے۔ عوام مسائل جوں کے توں رہیں گے بلکہ دگرگوں ہونے جا رہے ہیں۔ موجودہ قیمتوں میں رمضان ٹیکس کا اضافہ ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں رمضان سیزن آرہا ہے۔ اب سارے طعام خانوں میں تو نہیں جا سکتے۔ روز افزوں مہنگائی سے ڈر آنے لگا ہے۔ میں 120 روپے کلو دودھ لاتا تھا اور پختہ یقین تھا کہ وہ من مانی قیمت پر خالص دودھ دیتا تھا۔ بعض اوقات وہ مجھے صاف کہہ دیتا کہ پانی پڑ گیا ہے کل آئیے گا۔ عمران خان کی ایمانداری کی باتیں اکثر کرتا رہتا تھا۔ دو یوم قبل اتفاق سے میں نے اسے دودھ میں پانی ڈالتے دیکھ لیا۔ احتجاج کیا تو وہ مکر گیا حالانکہ میں نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیا تھا۔ کل ایک مرتبہ پھر میں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا تو وہ سیدھا ہوگیا کہنے لگا ہاں میں مانتا ہوں کہ ا پانی ڈالتا ہوں۔ ہاں ہاں میں کوئی جھوٹ تو نہیں بول رہا۔ سچ بول رہا ہوں کہ پانی ڈالا ہے۔ میں اسے ٹک ٹک دیکھتا رہا۔ اسے ذرا سی بھی کوئی شرم نہیں تھی بلکہ اس کی آنکھیں شعلے اگلنے لگیں۔ پھر بولا ہاں دودھ آپ کو سامنے نکال کردیں گے مگر 140 روپے کلو۔ یہی اس نے اس وقت کہا تھا جب 120 روپے کلو کہا تھا۔ ہر چیز بڑھ گئی ہے نہیں بڑھی تو سرکاری ملازم کی تنخواہ نہیں بڑھی۔ ہاں ہرسٹاپ پر فقیر بڑھ گئے ہیں کہ آسان کام ہے اور اب کچھ نہیں ہے رونا ہے یا کورونا ہے اللہ ہی جانے کیا ہونا ہے‘ ایک شعر: دلوں کے ساتھ یہ اشکوں کی رائیگانی بھی کہ سا تھ آگ کے جلنے لگا ہے پانی بھی