اے پی پی کی ملازمت قبول کرنے کے بعد، اظہر صاحب نے اپنا اگلا کالم، غالب کے اس شعر سے آغاز کیا۔ اسد اللہ خاں، تمام ہوا اے دریغا! وہ رند ِشاہد باز یہاں یہ اعتراف ضروری ہے کہ جیالوں کا پیٹنا بجا تھا کہ اظہر سہیل کی پیپلز پارٹی کے لیے، کوئی خدمات نہیں۔ بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی، یہ دائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے اکثر صحافی دوست، ان دنوں ملازمت کی درخواستیں، یوں لیے پھرتے تھے کہ حکومت میں سے ع کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے؟ تو چھپائے نہ بنے لیکن صدائی برنخواست۔ اور آخر آخر دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں کا مرحلہ آ کر رہا۔ اس کی تلافی ِمافات، پیپلز پارٹی نے تو کی نہیں۔ لیکن یہ "جرم" اظہر صاحب کے سر تھوپا گیا۔ اے پی پی کے ڈی جی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی کے تابع ِمہمل ہو کر رہ گئے ہوں۔ طبیعت کی آزادگی میں، ذرہ برابر کمی نہیں آئی تھی۔ اس کی بھی دو تین مثالیں سنتے چلیے۔ اکثر ایسا ہوا کہ کسی وزیر نے اے پی پی میں ملازمت دلانے کے لیے، کسی کی سفارش کی۔ یہاں سے ٹکا سا جواب ملنے پر، وہ جزبز ہوئے مگر پی گئے۔ حامد میر نے لکھا ہے کہ اسی نوع کے ایک موقع پر، نواب یوسف تالپور کو بھی سخت جواب ملا، تو وہ شکایت لے کر وزیر ِاعظم کے پاس چلے گئے۔ بے نظیر نے، داد رسی کے بجائے، الٹا انہیں ڈانٹ پلائی کہ مشکل سے تو یہ ہمارے ساتھ آئے ہیں اور آپ شکایت کر رہے ہیں؟ یوسف تالپور، وضع دار آدمی ہیں۔ انہوں نے احتجاج نہیں کیا اور کچھ لوگوں کے برعکس، دل میں بغض و کینہ نہیں رکھا۔ اَوروں کے بارے میں البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ دل میں رکھتے جاتے اور موقع ملنے پر، ان کی جڑیں کھودتے رہتے۔ خود بے نظیر بھٹو سے ان کے تعلقات، بظاہر جتنے بھی اچھے رہے ہوں، اختلافات کی یہ حالت تھی کہ زرداری صاحب ہنس کر , اکثر کہا کرتے تھے "تم دونوں آپس میں ملا ہی نہ کرو۔ جب بھی مل بیٹھتے ہو، لڑ کر ہی اٹھتے ہو"۔ اظہر صاحب، گاہے بگاہے وزیر ِاعظم کے کان میں یہ بات ڈالتے تھے کہ آکسفورڈ یونین کا فورم مغربیوں کیلئے بڑی شے سہی، گوال منڈی میں، یہ نقار خانے میں طْوطی کے برابر ہے۔ یہاں شیخ رشید جیسے ہی رش لیں گے۔ وہ چِڑ کر کہا کرتیں کہ آپ مجھے سیاست مت سکھایا کریں۔ ان مشوروں اور نصیحتوں سے، آصف زرداری کو اتفاق ہوتا تھا، لیکن بی بی قطب از جا نمی جنبد کی تصویر بنی رہتیں۔ ایک روز انہوں نے، والد صاحب سے کہا کہ خبروں کی باریکیاں اور نزاکتیں، آپ ٹی وی پروگرام میں کیوں نہیں بیان کرتے؟ اندازہ ہے کہ بدلہ لینے کا جذبہ، جس نے اے پی پی کی نوکری کرائی تھی، یہاں بھی بروئے کار آیا اور انہیں ٹی وی پر لے گیا۔ لیکن یہاں نشانہ، شریف اینڈ کو تو کم، ان کے خانہ زاد زیادہ تھے۔ چنانچہ یہ پروگرام بعض حلقوں میں بڑا غیرمقبول رہا۔ پروگرام کا نام رکھا گیا تھا "مقابل ہے آئینہ"، جو غالب کے اس شعر سے ماخوذ تھا۔ از مِہر، تا بہ ذرہ، دِل و دِل ہے آئینہ طْوطی کو شش جہت سے، مقابل ہے آئینہ اس پروگرام کا رنگ اور اس پر بعض حلقوں کا رد ِعمل دیکھا تو ان کے دوست افتخار عارف صاحب نے، مصرعہ ثانی میں بڑا بر محل اور عمدہ تصرف کیا۔ جو اگر ناگفتنی نہ ہوتا تو پیش کر دیا جاتا۔ پروگرام میں اخبار کی سرخیوں پر تبصرہ کر کے، دکھایا جاتا تھا کہ ایک ہی خبر کو، مختلف اخبار، کس طرح ابھارتے یا دباتے ہیں۔ اور دو چار لفظوں کے الٹ پھیر سے، بات کیا سے کیا بن جاتی ہے۔ پندرہ منٹ کا یہ پروگرام، لائیو نشر ہوتا تھا۔ اس کی تیاری، اس پندرہ بیس منٹ کے دورانیے میں کی جاتی تھی، جو اے پی پی کے دفتر سے پی ٹی وی آفس کی مسافت پر مشتمل تھا۔ سیاست کی حد تک، ان پروگراموں میں، حکومت کی تعریف میں تو کچھ نہیں کہا جاتا تھا، البتہ بعض اخباروں اور کبھی کبھی اپوزیشن کے، جو تقریبا ساری کی ساری "اتفاق فائونڈری" کی تیارہ کردہ تھی، لتے ضرور لیے جاتے۔ گویا یہاں بھی وہی انتقامی جذبہ کارفرما تھا، جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ ان واقعات کی بنا پر، ان کے ناقدین کہتے رہے کہ یہ بڑے منتقم مزاج ہیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اصل میں زمانے نے ان پر رحم نہیں کھایا۔ اسی چیز نے ان میں بغاوت کا جذبہ بہت بڑھا دیا تھا۔ ذرا کسی نے دْون کی لی اور یہ پنجابی محاورے کے مطابق، بْرے کو بْرے کے گھر پہنچا آئے! جہاں فوری بدلہ لینے کا موقع نہیں ہوتا تھا، وہاں، خدا جانے کتنے ہی "جبڑے" ان کی بدولت قبروں میں اْتر گئے۔ وہ شیخ سعدی کی ایک حکایت، اکثر سنایا کرتے تھے۔ شیخ پر کوئی شخص سنگ باری کیا کرتا تھا۔ فوری بدلہ لینے کی گنجائش نہ تھی، اس لیے سعدی صرف یہ کرتے کہ پتھر اٹھا کر، جیب میں ڈالتے جاتے۔ ایک دن، وہ بد خْو کسی جرم میں پکڑا اور جکڑا گیا۔ اس روز وہ بندھا ہوا سامنے کھڑا تھا اور سنگ زنی کی باری، شیخ سعدی کی تھی! کسی سے رعب کھا جانا، ان کی سرشت ہی میں نہ تھا۔ ہم نے بڑے بڑے بْتوں کو، ان سے ٹکراتے اور ٹوٹتے دیکھا ہے۔ طبیعت کی افتاد ایسی تھی کہ جو ذرا اکڑ کر ملتا، یہ اْس سے تَن جاتے۔ اور جہاں انکسار نظر آتا، موم ہو جاتے۔ یعنی خاکساروں سے خاکساری تھی سربْلندوں سے انکسار نہ تھا ایسے ہی ایک واقعہ کے راوی، سینئر صحافی ظفر ملک بھی ہیں۔ سن اٹھاسی یا نواسی میں، اظہر صاحب اور ظفر ملک صاحب، وزیر داخلہ اعتزاز احسن سے ملنے گئے۔ گفت گو شروع ہونے کے چند منٹ بعد، اعتزاز احسن نے چونک کر کہا۔ اظہر صاحب، آپ لکھ نہیں رہے؟ اس پر جواب ملا-"میں لکھا نہیں کرتا۔ بے فکر رہیے، آپ کی خبر، مِن و عَن چھَپ جائے گی"۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ان کا سا حافظہ، کسی اَور میں دیکھا ہی نہیں۔ چودھری صاحب کو زمانے نے، اب تو کچھ زمین پر اتارا ہے، ان دنوں یہ بہت اونچی ہوائوں میں تھے۔ تنک کر بولے کہ آپ لکھتے نہیں تو پھر میں بولتا بھی نہیں۔ اس پر، اظہر صاحب یہ کِہ کر اٹھ آئے کہ اچھا! تو پھر آپ سے لڑائی ہو گی۔ اس کے بعد، اظہر صاحب، ان سے بدظن ہی رہے اور باہمی تعلقات، کبھی روبراہ نہ ہوئے۔ (جاری ہے )