جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والی تحریک انصاف کے منشور کا سب سے اہم نقطہ ملک میں کرپشن کا خاتمہ تھا منشور میں قوم سے وعدہ کیا گیا کہ پی ٹی آئی قومی احتساب بیورو (نیب) کو خود مختار بنانے اور کرپشن کے خاتمے کے لئے تمام مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان بھی حلف لینے کے بعد اپنی ہر ناکامی کا جواز ماضی کے حکمرانوں کی لوٹ مار کو بتاتے اور ملک سے بدعنوانی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اپنی حکومت کے اقدامات کے دعوئوں سے عوام کو بہلاتے آرہے ہیں۔ وزیر اعظم کی کابینہ کے ارکان اور مشیران اپنے اپنے اداروں کی کارکردگی بارے میں بتانے کے بجائے میڈیا پر اپوزیشن کی کرپشن کی کہانیاں سنانے کے لئے ہر روز محفل سجاتے ہیں۔ خود وزیر اعظم کا بھی ہر سوال کا جواب’’ این آر او نہیں دوں گا‘‘ ہوتا ہے۔ ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لئے تحریک انصاف کی حکومت کے اقدامات کی حقیقت کی قلعی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ نے کھول دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2018ء کے مقابلے میں 2019ء کے دوران کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہے اور دس سال میں پہلی بار پاکستان کا بدعنوانی کے خاتمے کے حوالے سے سکور بڑھنے کے بجائے 2018ء میں جو 33تھا 2019ء میں مزید خراب ہو کر 32پر آ گیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی چونکا دینے والی رپورٹ حکمران جماعت کے لئے آئینہ اور عوام کے لئے کسی بم شل سے کم نہیں۔ کرپشن کے خلاف جہاد کی دعویدار حکمران جماعت کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومتی اقدامات کے دفاع پر مامور فوج ظفر موج نے حقائق کو تسلیم کرنے‘ تحقیقات کے بعد اسباب و علل کے تدارک کی یقین دہانی کے بجائے قوم کو یہ نوید سنائی ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے تحقیق کے لئے ماضی کا ڈیٹا استعمال کر کے ایک بار پھر چوروں لٹیروں کے کارنامے اجاگر کر دئے ہیں۔ حکمران جماعت کی سینہ زوری کے بعد ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے حکومتی دعویٰ مسترد کر کے تحریک انصاف کا سحر توڑ دیا۔ ٹرانسپیرنسی نے سی پی آئی کا 2018ء کا موازنہ 2019ء سے کیا ہے ۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر حکومتی ردعمل پر ناظم رامپوری کا یہ شعر صداق آتا ہے: بوس و کنار کے لئے یہ سب فریب ہیں اظہار پاک بازی و ذوق نظر غلط ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر حکومتی ترجمانوں کے ردعمل کو اظہار پاک بازی کا فریب کہنا اس لیے بھی غلط نہیں کہ خود حکومتی ادارے آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مالی سال 2018-19ء سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں مختلف وزارتوں میں عوامی فنڈز میں 12ارب روپے سے زائد کے غبن اور ان کے غلط استعمال کا انکشاف کیا ہے جبکہ سرکاری فنڈز میں 258 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں ذمہ داران کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیز کو سخت کارروائی کی سفارش تجویز دی گئی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی تائید تحریک انصاف کے دور اقتدار کے دوران پی ٹی آئی کے متعدد رہنمائوں کے خلاف کرپشن، اختیارات سے تجاوز سمیت کئی مقدمات کے درج ہونے سے بھی ہوتی ہے۔ جن میں سے کچھ زیر سماعت ہیں جبکہ کئی مقدمات سے متعلق کوئی پیش رفت نہ ہوئی ناقدین اس کی وجہ چیئرمین نیب کے اس بیان میں تلاش کرتے ہیں کہ’’ نیب کوئی ایسا اقدام نہیں کریگا کہ حکومت گر جائے‘‘۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے جن رہنمائوں پر بدعنوانی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ان میں عمران خان کے وسیم اکرم پلس بھی شامل ہیں عثمان بزدار پر کرپشن کے الزامات کے حوالے سے اہم بات یہ بھی ہے کہ ان پر الزام لگانے والی اپوزیشن نہیں تحریک انصاف کے لوگ ہیں۔ تحریک انصاف کے اپنے رکن اسمبلی نے عمران خان کے ایماندار وزیر اعلیٰ کے بھائیوں پر زمینوں پر قبضے‘ ان کے عزیزوں پر کام کروانے کے لئے رشوت لینے کے الزامات لگائے ہیںبلکہ نیب نے ان کو یونیکورن ہوٹل کو شراب کا لائسنس دینے کے عوض 5کروڑ رشوت لینے کے الزام میں طلب کیا ہے ۔12اگست 2015ء کو وزیر اعلیٰ نیب کی کمبانڈ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوئے نیب کے اعلامیہ کے مطابق وزیر اعلیٰ سوالات کے جوابات نہ دے سکے اس لئے سوال نامہ ان کو تھما دیا گیا۔ کرپشن کی گنگا میں نہانے والے صرف وزیر اعلیٰ ہی نہیں سندھ سے تحریک انصاف کے اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کو بھی نیب سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے کے الزام میں نوٹس بھجوا چکا ہے۔ گزشتہ برس جولائی میں نیب نے تحریک انصاف کے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کو اہلیہ اور ان کے بچوں کے اثاثوں میں اضافے کے حوالے سے راولپنڈی نیب آفس طلب کرنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ مارچ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے عمران خان کے مشیر ظفر مرزا کے خلاف اسمگلنگ کی شکایات پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ الزامات پر تحقیقات کی فہرست طویل ہے۔ ذوالفقار بخاری کو مختلف مقدمات کا سامنا رہا۔ نیب لاہور پنجاب کے صوبائی وزراء سبطین خان عبدالعلیم خان کو گرفتار کر چکی ۔تو کے پی کے میں مالم جبہ اور بی آر ٹی منصوبوں میں وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان اور سابق وزیر پختونخوااعلیٰ پرویز خٹک بھی الزامات کی زد میں ہیں۔اعظم سواتی اور منظور وٹو بھی نیب کے ریڈار میں آ چکے البتہ یہاں یہ بات اہم ہے کہ تحریک انصاف کے جن حکومتی پر وزراء پر بدعنوانی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں ان میں سے بیشتر 2018ء سے پہلے دوسری جماعتوں سے اڑان بھر کر تحریک انصاف کے چھتری پر بیٹھے تھے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کی این آر او نہ دینے کی رٹ اور ان کے مشیروں کی طرف سے دن رات ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں سنانے اور کرپشن کے خاتمے کے دعوئوں کو طفل تسلی اور دھوکہ دہی کہا جا سکتا ہے ۔بہتر ہو گا وزیر اعظم ماضی کے حکمرانوں کے گرد احتساب کا شکنجہ کسنے کے ساتھ اپنی جماعت میں شفافیت پر بھی توجہ دیں۔ بصورت دیگر ان کے احتساب کو یکطرفہ اور شفافیت اور میرٹ کے دعوئوں کو طفل تسلی اور دھوکہ ہی سمجھا جائے گا اور خالی تسلی کے بارے میں شفیق خلش نے کیا خوب کہا ہے: بھرتا کہیں ہے پیٹ تسلی سے بھی کوئی دے دے کے شہر و دہر کے ارباب تھک گئے