وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغان طالبان اور امریکہ کے مابین امن مذاکرات کے متعلق ہمسایہ دوست ممالک کو اعتماد میں لینے کے لیے چار ملکی دورے پر ہیں۔ ان مذاکرات میں تازہ اور اہم ترین پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان کی کاوش سے افغان طالبان افغان حکومت سے بات کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ قبل ازیں طالبان نے صرف امریکی نمائندوں سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی، امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے دبائو کے باوجود طالبان نے افغان حکومت کے ساتھ بیٹھنا قبول نہیں کیا تھا۔ نئی پیشرفت سے امن عمل کے درست سمت میں آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہو گی اور تنازع کے حقیقی فریق ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست بات چیت کرکے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ بین الاقوامی تنازعات کوپرامن طور پر حل کرنے کی حمایت کرتا رہا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے متعلق بھی پاکستان کا موقف اسی بنیاد پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ دہشت گردی ایک ایسا خطرہ ہے جس کا سامنا پوری دنیا کو ہے۔ بنیادی طور پر لسانی، نسلی اور مذہبی اختلافات کو تشدد کے ذریعے طے کرنے کی کوشش منظم ہو کر دہشت گردی کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ امریکہ اور عالمی سرمایہ داری نظام کے سرخیل ممالک کا عشروں تک کمیونزم اور سوشلزم سے تصادم رہا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرمایہ داری نے توانائی کے ذخائر پر قبضہ کی منصوبہ بندی کی۔ مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں جنگوں کے پس پردہ مقاصد میں سے ایک توانائی کے نئے ذخائر پر تسلط تھا۔ اس منصوبے پر عمل عراق جنگ سے شروع ہوا۔ اب پورا مشرق وسطیٰ مسلح تنازعات میں حل رہا ہے مگر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کو یہاں سے مسلسل سستے داموں تیل اور گیس کی فراہمی جاری ہے۔ افغانستان پر یلغار نائن الیون کے حملوں کے ذمہ داروں کی تلاش میں اسامہ بن لادن تک پہنچنے کے لیے تھی۔ جب افغانستان نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تو ڈیڑھ لاکھ اتحادی فوجی افغانستان پر چڑھ دوڑے۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے مجبور کیا گیا کہ وہ طالبان کی حمایت روک کر اتحادی افواج کو سپلائی میں مدد دے۔ پاکستان کی طرف سے تعاون نہ کرنے پر اسے تورا بورا بنانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ پاکستان نے اس وقت بھی امریکی حکام سے کہا تھا کہ افغانستان میں ان کی موجودگی خطے میں تشدد کی ایک نئی آگ بھڑکا سکتی ہے لہٰذا اس معاملے کا حل مذاکرات سے تلاش کیا جائے تاہم امریکہ میں بھارتی لابی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے پاکستان کے مشوروں کو غیر مؤثر بنائے رکھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے جنوبی ایشیا کے لیے نئی پالیسی جاری کی۔ اس پالیسی کا لب لباب یہ تھا کہ افغانستان کے معاملات سے پاکستان کو بے دخل کرکے اس کا اثرورسوخ ختم کیا جائے اور بھارت کو افغان امور میں بتدریج طاقتور کردار عطا کیا جائے۔افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد وارداتیں کیں۔ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ دو روز قبل افغانستان میں مارا گیا۔ ممکن ہے امریکہ کو پاکستان کے تعاون کی ضرورت نہ ہوتی تو اسلم اچھو کئی سال تک پاکستان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھتا۔ امریکہ جب طاقت اور ڈالر کی قوت سے افغانستان کے تنازع کو حل نہ کر سکا تو اسے فکردا منگیر ہوئی کہ سالانہ اربوں ڈالر مسلسل جنگ میں جھونکنے کے باوجود افغان طالبان ملک کے پچاس فیصد سے زائد علاقے پر قابض ہیں۔ امریکی منصوبہ ساز سمجھنے لگے ہیں کہ اگر کچھ عرصہ مزید امریکہ یہاں رہا تو اس کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ امریکی دانشمند اپنی معیشت کو بحران سے بچانے کے لیے افغان تنازع طے کرنے کے حامی ہیں۔ امریکہ میں اب حکومت کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ بھارت کو افغان امور میں اہمیت دے کر اپنے لیے مزید مسائل پیدا نہ کرے۔ چند ہفتے قبل صدر ٹرمپ نے اپنے روایتی انداز میں دو ٹویٹس کے ذریعے پاکستان پر الزام لگایا تھا کہ وہ بھاری امداد کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے لیے کچھ نہیں کرسکا۔ ان ٹویٹس کا بروقت اور دوٹوک جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمرن خان نے پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں کا ذکر کیا اور صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ انہیں تاریخی حقائق سے آگاہی کی ضرورت ہے۔ اس لفظی جنگ کے بعد امریکی انتظامیہ کے رویے میں حیرت انگیز بدلائو دیکھنے میں آیا۔ صدر ٹرمپ نے ایک خط کے ذریعے وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی کہ وہ تنازع افغانستان کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس سلسلے میں پاکستان نے مشورہ دیا کہ امریکہ خطے کے دوست کے طور پر افغانستان سے نکلے۔ امریکی درخواست پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے متفقہ موقف اختیار کیا اور واضح کرنا ضروری سمجھا کہ پاکستان اب پرائی جنگوں کا سپاہی نہیں بنے گا۔ پاکستان کی جانب سے امن مذاکرات کی کوششیں شروع ہوئیں تو امریکہ نے مطالبہ کیا کہ افغان طالبان اشرف غنی حکومت سے مذاکرات کریں۔ طالبان اشرف غنی کو بے اختیار سمجھتے ہیں اس لیے وہ امریکہ سے مذاکرات پر اصرار کرتے رہے۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے قبل اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر فریقین نے ایک دوسرے کے قیدی رہا کئے۔ پاکستان نے قیام امن کے عمل کوپائیدار بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور آخر کار افغان طالبان اور افغان حکومت کو ایک میز پر بٹھانے میں کامیاب ہوگیا۔ بلاشبہ اسے اب تک کا سب سے اہم واقعہ قراردیا جا سکتا ہے۔ اسے پاکستان کی افغان تنازع کو پرامن انداز میں طے کرانے کے سلسلے میں صلاحیت کا مظاہرہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان نے چاروں ہمسایہ دوست ممالک ایران، افغانستان، چین اور روس کو افغان امن مذاکرات کے متعلق آگاہ کرکے علاقائی قوتوں کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی کی اہمیت تسلیم کی ہے۔ نئی صورت حال دہشت گردی سے پاک عہد کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔