افغان امن عمل کی بحالی کے لئے کوششیں تیز ہو گئیں۔ سینئر طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں 11رکنی طالبان وفد اسلام آباد میں پہنچ گیا ہے۔ جبکہ طالبان کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات کرنے والا5 رکنی امریکی وفد بھی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی قیادت میں منگل کی شب سے اسلام آباد میں موجود ہے۔ لہذا وفود کے مابین ملاقات اور مذاکرات کی بحالی کا قوی امکان ہے۔وزیراعظم عمران خان سے طالبان وفد نے ملاقات کی جس میں افغان امن عمل سے متعلق بات چیت کی گئی، ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے۔ پاکستان شروع دن سے ہی افغانستان میں امن کا خواہاں ہے، اگر افغانستان میں امن قائم ہو گیا تو لامحالہ اس کا فائدہ پاکستان کو ہو گا۔ افغان مہاجرین کا بوجھ کم اور تجارت بڑھے گی۔ اب تک افغان طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات کے تین دور ہوچکے ہیں۔ پہلے جولائی 2015ء میں بات چیت شروع ہوئی لیکن فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے،پھر ایک برس بعد مئی 2016ء میں دوبارہ مذاکرات بحال ہوئے لیکن افغان حکومت کے دبائو پر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی لیکن حالیہ مذاکرات میں فریقین نے کھلے دل سے ایک دوسرے کی باتیں سنیں اور یوں مذاکرات کئی ماہ تک چلے۔ حتمی مسودے پر فریقین کے قائدین نے دستخط کرنے تھے کہ اچانک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کر کے مذاکرات ختم کر دیے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تینوں بار پاکستانی قیادت سے مشورہ کئے بغیر مذاکرات معطل کئے گئے۔ حالانکہ امریکہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے لئے پاکستان کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ اب ایک بار پھر پاکستان مذاکرات کی بحالی کے لئے کوشاں ہے، اس بار پاکستان کو امریکی حکام سے کوئی گارنٹی لینی چاہیے کیونکہ مذاکرات محض کھیل نہیں بلکہ ایک ملک کی بقا سلامتی اور امن و امان کا مسئلہ ہے۔ 40برس سے پاکستان اور افغانستان یکساں طور پر عدم استحکام کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، جبکہ امریکہ بھی 18برس بارود کی بارش کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان میں قیام امن کا واحد اور مثبت راستہ فریقین میں مذاکرات ہیں۔افغانستان میں امن پورے خطے کی خوشحالی اور امن و استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔ مذاکرات کی معطلی کے بعد افغان طالبان نے چین‘ روس اور ایران کے دورے کئے تھے۔ جس کا مقصد خطے کے دیگر ممالک کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ مذکورہ تینوں ممالک نے طالبان کو مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ، جس کے بعد خبریں سامنے آئیںکہ طالبان 70‘80فیصد علاقے پر قبضہ کر کے عبوری حکومت کا اعلان کر دیںگے اور مذکورہ تینوں ممالک ان کی حکومت کو تسلیم بھی کر لیں گے۔ ان چہ میگوئیوں میں ہی اشرف غنی حکومت نے صدارتی الیکشن کا اعلان کر دیا تھا۔28ستمبر کو ہونے والے صدارتی الیکشن کا افغان عوام نے عملاً بائیکاٹ کیا ہے، کیونکہ اس الیکشن کا انتہائی کم ترین ٹرن آئوٹ سامنے آ رہا ہے۔ اس لیے ان انتخابات کی کوئی خاص اہمیت یا ساکھ نہیںہے۔ اگر افغان طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات دوبارہ شروع ہوجائیں تو افغان صدارتی الیکشن منسوخ ہی کرنا پڑے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کشتی منجدھار میں پھنس چکی ہے۔ لیکن وہ ہر حال میں افغان جنگ ختم کرنے کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اب بھی کوشش ہے کہ رواں ماہ معاہدے پر دستخط ہو جائیں تاکہ وہ اگلی ٹرم کے لئے جب ووٹ مانگنے جائیں تو اپنے ووٹرز کو پہلی انتخابی مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کی تکمیل بارے آگاہ کر سکیں۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی صدر امن معاہدے کے ڈرافٹ میں کچھ تبدیلیاں کرنے کے خواہشمند ہیں، اس لئے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد افغانستان میں نیٹو مشن کے امریکی سربراہ جنرل سکاٹ ملر اور طالبان وفد کی ایک ہی وقت میں اسلام آباد یاترا محض اتفاق نہیں بلکہ پاکستان فریقین کے گلے شکوے ختم کرا کر انہیں ایک بار پھر مذاکرات کے لئے تیار کرے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان کو پہلے سے زیادہ احتیاط سے کام لینا ہو گا کیونکہ امریکہ ہمیشہ پاکستان کو استعمال کر کے چھوڑدیتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکی جنگ میں پاکستان نے بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دی ہیں اس کے باوجود امریکہ کا پاکستان کے ساتھ رویہ نا مناسب ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ طالبان وفد نے ملاقات میں مذاکرات معطلی کی وجوہات بتائیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مذاکرات کی معطلی کا زیادہ نقصان امریکہ کو ہوا ہے، صرف ایک فوجی کے قتل کو بہانہ بنا کر امریکی صدر نے جس طرح مذاکرات کی میز الٹی وہ کوئی دانشمندانہ بات نہیں ۔ مذاکرات کے دوران طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کے بھائی کو قتل کیا گیا لیکن قومی مفاد میں طالبان نے مذاکرات کو جاری رکھا۔ اب افغان عوام نے بھی صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کر کے طالبان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے،اس لیے امریکہ کے پاس افغانستان میں مذاکرات کی بحالی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ امریکہ افغانستان سے لازماً انخلا چاہتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کو بڑے سوچ سمجھ کر اپنے پتے کھیلنے چاہئیں۔ پاکستانی حکومت اگر کوشش کرے تو بین الافغان مذاکرات بھی شروع ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد افغانستان کے متحارب گروپوں کو ایک میز پر بٹھانا بہت ضروری ہے۔ اگر افغانستان کے متحارب گروپ آپس میں مذاکرات نہیں کرتے تو ایک بار پھر افغانستان میں خون خرابے کا خدشہ ہے۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان بین الافغان مذاکرات شروع کروا کر افغانستان کو امن کا گہوارہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کی کاوشیں تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔