چمن کے قریب پاک افغان سرحد سکان کانٹر کے علاقے میں پاکستانی فورسز کی جانب سے باڑ لگانے کے دوران افغان فورسز کے ساتھ تلخ کلامی پر دونوں جانب سے فائرنگ کے تبادلہ کے بعد باب دوستی ہر قسم کی آمدورفت کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ 71سالہ تاریخ میں سوائے اڑھائی سالہ افغان طالبان کے دورحکومت کے مغربی سرحد سے کبھی بھی ہوا کا ٹھنڈا جھونکا نہیں آیا۔ 1947ء میں بھی افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستانی رکنیت کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کے لیے اپنی ملکی سرحدیں کھلی رکھیں، جس کے باعث سمگلنگ، اسلحہ اور منشیات جیسی مکروہ چیزوں نے پاکستان کو کھوکھلا کر دیا، پاکستان آج بھی بیرونی مداخلت سے پاک،مستحکم، خوشحال اور خود مختار افغانستان کے حق میں ہے، لیکن اشرف غنی حکومت جس کی رٹ کا بل کے صدارتی محل کے سائے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے وہ مسلسل پاکستان کے خلاف نفرتوں،عداوتوں اور دشمنیوں کو فروغ دے رہی ہے۔ افغان حکومت کے عدم استحکام کے باعث ہی پاکستان نے مغربی سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تا کہ دہشت گردوں، سمگلروں، منشیات فروشوں اور غیر ملکیوں کی آمدورفت روکی جا سکے۔ پاکستان نے 2344کلو میٹر طویل سرحد میں سے 43کلو میٹر سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل کیا ہے بلکہ افغان بارڈر پر 750قلعوں میں سے 95قلع بھی مکمل ہو چکے ہیں۔ اسی طرح شمالی وزیرستان کی پاک افغان سرحد پر بھی قلعے اورچیک پوسٹیں تعمیر کی جا چکی ہے۔ اس کا مقصد دونوں ممالک کے مابین غلط فہمیوں کو دور کرنا اور اپنی سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت روکنا ہے، لیکن اشرف غنی حکومت بھارتی آشیر باد سے ہمارے فوجی جوانوں پر بلا جواز فائرنگ کر رہی ہے۔ پاکستان 30سال سے افغانیوں کی مہمان نوازی کر رہا ہے اور ہمیشہ معاملات حکمت، دانش اور تدبر و بصیرت سے سنبھالنے کی کوشش کی ہے لیکن افغان حکومت جو پہلے ہی امریکی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ محسن کشی پر اتر آئی ہے۔ اشرف غنی حکومت (را)کی من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی رپورٹس پر امور مملکت چلانے کی بجائے زمینی حقائق دیکھے کیونکہ امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلاء کے لیے طالبان سے معاملات طے کر لیے ہیں۔