افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا تیسرا اجلاس 31 مارچ 2022 کو چین کے صوبہ انہوئی کے شہر تونشی میں منعقد ہوا ہے جِس میں سات ممالک یعنی چین، ایران، پاکستان، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ یا سینئر نمائندوں نے شرکت کی ہے. افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ اور افغان طالبان کے درمیان چین کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات سے افغان مسئلے کو حل کرنے میں چین کا کردار ایک تعمیری اور قائدانہ قوت کے طور پر ابھرتا معلوم ہوتا ہے جِس سے علاقائی ممالک اور ممکنہ طور پر عالمی برادری کو بھی توقعات وابستہ ہوئی ہیں۔ اِجلاس کے بعد چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ بیان کے مطابق تمام فریقین نے واضح، عملی اور باہمی افہام و تفہیم کے ماحول میں افغانستان کی صورتحال اور افغانستان سے متعلق تعاون پر جامع اور تعمیری بات چیت کی۔ بیان میں ان ممالک پر جو بنیادی طور پر افغانستان کی موجودہ حالت زار کے ذمہ دار ہیں (اِشارہ اَمریکہ اور اسکے اِتحادی ملکوں کی طرف ہے) زور دیا گیا ہے کہ اَفغانستان کی اقتصادی تعمیر نو اور ترقی کے لیے کیے گئے اَپنے وعدوں کو پورا کریں جبکہ لوگوں کی معاش میں بہتری اور نسلی گروہوں، خواتین اور بچوں سمیت تمام افغانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یہ بات قابلِ ذِکر ہے کہ چینی وزیرِخارجہ وانگ نے طالبان رہنماؤں سے ملنے کے لیے گزشتہ ہفتے کابل کا بھی اچانک دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے قائم مقام افغان وزیر خارجہ سے ملاقات کی جس میں سیاسی اور اقتصادی تعلقات سمیت کان کنی کے شعبے میں کام شروع کرنے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر اقدام میں افغانستان کے ممکنہ کردار پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ عالمی برادری نے ایک دن پہلے ہی چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کے لیے طالبان کے اسکول کھولنے کے وعدے کے خلاف غصہ نکالا۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے بیان کا خلاصہ آٹھ نکات پر کیا، جس میں افغان عبوری حکومت کی حکمرانی کی کوششوں کو تسلیم کرنا، افغانستان کی اقتصادی تعمیر نو اور آزاد ترقی کی حمایت، بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے افغانستان میں لیکویڈیٹی کو فعال طور پر داخل کرنے کا مطالبہ کرنا اور امریکہ اور مغرب پر اَفغان اَثاثوں کو غیر منجمد کرنے پر زور دینا شامل ہے تاکہ انسداد دہشت گردی اور سیکورٹی تعاون کو مضبوط کیا جاسکے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے فروری میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں میں سے تقریباً نصف کو 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے متاثرین کے لیے مختص کرنے کی اجازت دی گئی جبکہ بقیہ اثاثے، 3.5 بلین ڈالر، افغانستان میں انسانی امداد کے لیے بنائے گئے ٹرسٹ فنڈ میں رکھے جائیں گے۔طالبان رہنما بیجنگ کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ مالی امداد کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کی recognition بھی حاصل کی جاسکے۔ مگر خطے میں چین کے اَپنے مفادات ہیں جنکے تحفظ کو یقینی بنانا اسکی اَوّلین ترجیح ہے۔ سنکیانگ میں اوغور مسلمانوں کے معاملات کے سلسلے میں چین کو اَمریکہ سمیت مغربی ممالک کے پروپیگنڈا کا سامنا ہے اور اِس منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے چین اَپنے ہمسایہ مسلمان ملکوں کے تعاون کا خواہاں ہے۔ اِس کے علاوہ چین اپنے اسٹریٹجک بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ایک حصے کے طور پر پاکستان ، ایران اور دیگر ایشیائی ممالک میں بنیادی ڈھانچے کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے تاکہ امریکہ کا ایشیا کی اہم طاقت کے طور پر متبادل ہوسکے۔ تاہم ، اَب چین افغانستان کو بھی اِس منصوبے کا حصّہ بنانا چاہتا ہے جبکہ طالبان جانتے ہیں کہ بین الاقوامی مدد کے بغیر ملک کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ملکی اور بین الاقوامی محاذ پر قانونی جواز ضروری ہے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کی پچھلی دو میٹنگوں کے مقابلے میں، موجودہ میکانزم نے چین، روس اور امریکہ کے درمیان افغانستان پر توسیعی ٹرائیکا جیسی اضافی میٹنگیں شامل کرکے حکام کو بات چیت کرنے کے زیادہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ یوکرائن کے بحران پر امریکہ اور روس کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باوجود، دونوں کے خصوصی نمائندے اِس اِجلاس میں اَب بھی ایک ساتھ بیٹھے، جس سے (میری رائے میں) افغان مسائل پر چین کی غیر جانبداری اور اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ہمسایہ ممالک کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی (خصوصی نمائندے) اور تین ورکنگ گروپس یعنی سیاسی و سفارتی، اقتصادی اور انسانی، سلامتی اور استحکام کے درمیان باقاعدہ مشاورت کے لیے ایک طریقہ کار کے آغاز کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین ملاقاتوں کے نتائج پر عمل کیا جا سکے۔ یوکرائن کے بڑھتے ہوئے بحران نے کسی نہ کسی طرح دنیا کی توجہ یورپ کی طرف مبذول کرائی ہے لیکن افغانستان کو درپیش انسانی بحران اور امدادی کی کمی، کم توجہ کے ساتھ بھی کم نہیں ہوئیں۔ اَقوام متحدہ نے 2022 میں ایک انسانی تباہی سے بچنے کے لیے افغانستان کے لیے 5 بلین ڈالر کی فنڈنگ کی اپیل شروع کی ہے۔ تاہم ابھی تک صرف 13 فیصد فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔ اَخباری اِطلاعات کے مطابق برطانیہ نے افغانستان کے لیے زندگی بچانے والی خوراک اور دیگر امداد کے لیے 286 ملین پاؤنڈ (374 ملین ڈالر) دینے کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم ملک کو موثر انداز میں چلانے اور عالمی برادری میں تنہائی سے بچنے کے لیے ، طالبان کو اب اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اَہم بات یہ ہے کہ دارالحکومت کابل میں گزشتہ 20 سالوں میں ایک پڑھی لکھی اور متحرک مڈل کلاس وجود میں آ چکی ہے جو آزاد میڈیا کے دور میں پروان چڑھی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں میں حاصل شدہ آزادی سے موجودہ سوشل میڈیا کے دور میں آسانی سے دستبردار نہیں ہو گی۔ علاقائی ممالک خاص طور پر توسیعی ٹرائیکا، جس میں پاکستان ، چین ، روس اور امریکہ شامل ہیں، افغانستان کی صورتحال پر علاقائی ردعمل پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیونکہ ایک پرامن، مستحکم، ترقی پذیر اور خوشحال افغانستان تمام افغانوں کی خواہش ہے۔ یہ علاقائی ممالک اور عالمی برادری کے مشترکہ مفادات میں بھی ہے۔