کابل کے نواح میں بھارت ایک بڑے ڈیم کی تعمیر کے لیے مالی امداد فراہم کررہاہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی جانب بہنے والے پانی میں غیر معمولی کمی ہوجائے گی جو نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے موجود تنازعات اور کشیدگی میں اضافے کا سبب بنے گی بلکہ دنیا اس منصوبے کو ایک بڑے اور ابھرتے ہوئے تنازعے کے طورپر دیکھ رہی ہے۔ چند دن قبل معروف جریدے فارن پالیسی نے ایک تفصیلی مضمون ’’افغانستان کے دریا پاکستان کے خلاف بھارت کا اگلا ہتھیار ہوسکتا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ جس میں کہاگیا کہ کابل کے چارہ سیاب ضلع میں دریا کابل پر شاہ توت کے نام سے ایک منصوبے کا بھارت کے فنی اور مالی تعاون سے تعمیراتی کام شروع کیا جانے والا ہے۔ ڈیم سے کابل کے بیس لاکھ شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیے جانے کے علاوہ آبپاشی کے لیے بھی وافر مقدار میں پانی دستیاب ہوگا۔ دریائے کابل کے ساتھ اور دارالحکومت سے ذرا ہٹ کر تعمیر کیے جانے والے ایک نئے شہر کے باسیوں کو بھی اسی ڈیم سے پانی فراہم کیے جانے کا منصوبہ ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی طرف پانی کے بہاؤ میںسترہ فی صد کے لگ بھگ کمی ہوجائے گی۔ چنانچہ پاکستان جو پہلے ہی پینے اور آبپاشی کے لیے درکار پانی کی قلت کا شکارہے مزید مشکلات سے دوچار ہوجائے گا۔ فارن پالیسی کے مضمون نگار کے مطابق یہ ڈیم دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافے کا سبب بھی بن سکتاہے۔یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان دریائے کابل سے مشترکہ طور پر مستفید ہوتے رہے ہیں ۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران بھارت نے افغانستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیرمیں، جن میں سرکاری عمارتیں، ڈیم اور شاہرائیں شامل ہیں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ کہاجاتاہے کہ بھارتی سرمایہ کاری کا حجم دوارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ افغان تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں مستقبل کے پانی کی قلت سے بچنے کے لئے ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے کیونکہ پاکستان کی طر ح افغانستان بھی پانی کے بحران کا شکار ملک ہے۔ گزشتہ برسوں میں برفباری اور بارشوں میں 60 فی صد کمی ہوئی ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق یہ ڈیم بھارت کی پاکستان کو نقصان پہنچنے کی ایک طویل المعیاد منصوبہ بندی کا حصہ ہے تاکہ اسے نہ صرف پانی کی کمی کا شکار کیا جائے بلکہ اسے افغانستان سے بجلی خریدنے پر مجبور کیا جاسکے۔یاد رہے کہ دریائے کابل پر ہی پہلے تین ڈیم تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ افغانستان سے آنے والے پانی پر انحصار کرتاہے۔ بدقسمتی کے ساتھ دونوں ممالک کے پاس اس طرح کے مسائل کے حل اور خاص کر پانی کے تنازعات کے حل کے لیے کوئی میکانزم دستیاب نہیں۔ امریکہ کی سینٹ فارن ریلیشن کمیٹی نے بھارت کو کچھ عرصہ قبل خبردار کیاتھا کہ وہ شاہ توت ڈیم کی تعمیر کے وسائل فراہم کرنے میں احتیاط برتے کیوںکہ یہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں مزید زہر گھول سکتاہے۔ فارن پالیسی میگزین بتاتاہے کہ دنیا میں کئی ممالک میں پانی کے تنازعات پر جنگیں ہوئیں اور کئی ایک میں ہونے جارہی ہے۔ مثال کے طور پر شام اور یمن کے حالیہ تنازعات میں دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ پانی کی تقسیم بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ مصر اور ایتھوپیا بھی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں کیونکہ مصر کو خدشہ ہے کہ ایتھوپیا جو نیا ڈیم بنا رہاہے اس سے دریائے نیل کے پانی اور بہاؤ میں کمی واقع ہو گی۔ پاکستان کی تشویش اور تحفظات سمجھ سے باہر نہیں کیونکہ بھارت نہ صرف شاہ توت ڈیم کی تعمیر میں مدد کررہاہے بلکہ وہ کابل دریا پر بارہ مزید ڈیموں کی تعمیر میں بھی افغان حکومت کے ساتھ اشتراک کررہاہے جن سے لگ بھگ بارہ سو میگاواٹ بجلی پیداہونے کا امکان ہے۔ان ڈیموں کی تکمیل سے پاکستان کی طرف بہنے والے پانی میں نمایاں کمی واقع ہوجائے گی۔ چنانچہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی نہ صرف برقراررہے گی بلکہ اس میں اضافے کا بھی امکان ہے۔ دوسال پرانی بات ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے قصبے اوڑی میں ایک فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے میں سترہ فوجی ہلاک ہوئے تو پاک بھارت کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔پاکستان پر دبائو ڈالنے اور اسے سبق سکھانے کے نام پر بھارت نے جہاں متعدد اقدامات کیے وہاں پانی کو بھی بطور ہتھیار کے استعمال کیا۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے اعلان کیاکہ بھارت کے کسانوں کو پانی کی زیادہ ضرورت ہے او روہ سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرسکتے ہیں۔ اسی دوران بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اعلان کیا تھا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرسکتاہے۔ وزیراعظم مودی کی صدارت میں ہونے والے بھارتی کابینہ کے ایک اجلاس میں بھی سندھ طاس معاہدے کی منسوخی پر غور کیاگیا۔ اس اجلاس میں نریندر مودی نے کہا: لہو اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ حکومت کو بھارت اور افغانستان کے ساتھ پانی کے مسئلہ پر مسلسل مذاکرات کی ضرورت ہے۔ انہیں عالمی قوانین کے پس منظر میں قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ دریاؤں کے پانی پر پاکستانی شہریوں کا حق کسی سے کم نہیں۔عالمی اداروں کو بھی اس حوالے سے مسلسل باخبر رکھنے کی ضرورت ہے۔ فارن پالیسی میگزین ہو یا دیگر عالمی رسائل وجرائد وہ سب کے سب متفق ہیں کہ پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہے اور یہ بحران اگلے برسوں میں مزید شدت اختیارکرجائے گا۔ پاکستان کی مشکل یہ ہے کہ اس کے حصے میں آنے والے زیادہ تردریاؤں کا منبع مقبوضہ کشمیر میں واقع ہے یا افغانستان میں، جہاں اس کا نہ صرف اثر ورسوخ محدود ہے بلکہ وہاں کی حکومتیں اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ۔ دیر آید درست آید !ملک میں پانی کے ذخائر کی تعمیر کی ایک مہم شروع ہوچکی ہے۔ شہری بھی ڈیم فنڈ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ شہریوں کے فنڈز سے اربوں ڈالرکے منصوبے مکمل کرنا کارے دارد والا معاملہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دیامر بھاشا ڈیم کے علاوہ بھی دیگر منصوبوں کی تکمیل کے لیے جنگی بنیادوں پر سرگرم ہو۔ سماجی سطح پر بھی پانی کے استعمال میں احتیاط برتنے کے لیے آگہی مہم شروع کرنا ضروری ہے۔ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے سے بھی پاکستان بہت سارے مسائل پر قابو پاسکتاہے۔ شہریوں کو پانی کے استعمال میں احتیاط کے جدید طریقے سکھانے کی جس قدر ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔