وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے گزرے مالی سال 2020-21ء کے دوران قومی معیشت کے ترقی پذیر رجحانات پر مشتمل اقتصادی سروے جاری کیا ہے۔ گزشتہ مالی سال اس لحاظ سے مشکل تھا کہ حکومت کو معاشی استحکام کا چیلنج درپیش رہا۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ قومی شرح نمو4فیصد رہی‘ ملکی برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا‘ کرنٹ اکائونٹ دس ماہ سے سرپلس جا رہا ہے جبکہ ٹیکس محاصل کا حجم 42کھرب روپے رہا۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال کے لئے حکومت نے جو اہداف مقرر کئے تھے ان میں سے بیشتر حاصل کر لئے گئے ہیں اور استحکام کا مرحلہ تسلی بخش ثابت ہونے کے بعد نئے مالی سال کے لئے شرح نمو کو بڑھانے پر توجہ دی جائے گی۔ تحریک انصاف کو طویل عرصے کی سیاسی جدوجہد میں عوام سے کئے گئے وعدوں کا خیال رہا ہے۔ حکومت ملنے کے بعد سماجی‘ سیاسی اور معاشی اصلاحات کا ایک دبائو ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے حامیوں سے وعدہ کر رکھا تھا کہ ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کی جائیں گی‘50لاکھ بے گھروں کو اپنے گھر مہیا کئے جائیں گے‘ صنعتی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا‘ برآمدات میں اضافہ کیا جائیگا‘ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لا کر محاصل کا حجم بڑھایا جائے گا۔ نئے ڈیمز کی تعمیر کا وعدہ بھی کیا گیا۔ اقتدار ملنے کے بعد خزانے پر نظر ڈالی گئی تو معلوم ہوا کہ ماضی میں جو بھاری بھرکم قرض لئے گئے ان کی ادائیگی مشکل ہو رہی تھی۔ خزانے کی حالت اتنی پتلی تھی کہ کسی طرح کا ترقیاتی منصوبہ شروع کرنا مشکل تھا۔ پہلے اور دوسرے سال کے بجٹ میں ان شعبوں پر ٹیکس بڑھائے گئے جو معیشت کو رواں رکھنے کا کام کر رہے تھے۔ اس سے یہ ہوا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری رک گئی‘ تعمیرات اور رئیل سٹیٹ کے شعبے میں زوال دکھائی دینے لگا۔ تیسرے سال کا آغاز ہوا تو اس سے پہلے کورونا پھیل چکا تھا۔ احتیاط کا سب سے موثر طریقہ یہی تھا کہ لاک ڈائون کر دیا جائے۔ دکانیں ‘ بازار‘ شاپنگ مال‘ کارخانے‘ تعلیمی ادارے‘ شادی ہال‘ جمنیزیم ‘ اجتماعی تقریبات اور تفریح گاہوں پر پابندی لگا دی گئی۔ دو ڈھائی ماہ تک جاری رہنے والی اس پابندی سے ہر گھر متاثر ہوا۔ بعدازاں حکومت نے پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا۔ مختلف کاروباروں کے لئے ایس او پیز اور اوقات ترتیب دیے گئے۔ اس سے یہ تو ہوا کہ لوگوں کے بھوکوں مرنے کا خطرہ ٹل گیا لیکن کاروباری اور پیداواری سرگرمیوں میں سست روی سے معیشت مزید دگرگوں ہو گئی۔ حکومت نے کم آمدن والے طبقات کے لئے احساس کفالت پروگرام شروع کیا۔ اس سے ایک فرق پڑا کہ نچلے طبقات کو محدود سی سہی معاشی آسانی میسر آئی۔پھر بھی اقتصادی سروے بتاتاہے کہ کورونا کی وجہ سے دو کروڑ افراد بے روزگار ہوئے۔ گزشتہ بجٹ میں حکومت نے شرح نمو کا ہدف 2.1فیصد رکھا تھا۔ آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے ماہرین کا اندازہ تھا کہ پاکستانی معیشت منفی درجے میں چلی جائے گی۔ حکومت کے سامنے تمام خدشات موجود تھے اس لئے محتاط انداز سے منصوبہ بندی کی گئی۔ مینو فیکچرنگ‘ ٹیکسٹائل ‘ زراعت اور تعمیراتی شعبے کو گیس‘ بجلی اور ٹیکسوں کی مد میں چھوٹ دی گئی۔ اس رعایت کا فوری مثبت ردعمل ظاہر ہوا۔ صرف مینو فیکچرنگ کے شعبے میں 9فیصد نمو ظاہر ہوئی‘ کپاس کی فصل مسلسل خراب رہنے کے باوجود پاکستان کی زراعت نے 2.77فیصد نمو دکھائی۔ صنعتی شعبے کی کارکردگی میں بھی بہتری آئی‘ اس کی شرح نمو3.6فیصد بڑھی۔ خدمات کے شعبے میں 4.4فیصد نمو دکھائی دی جو اس کے طے کئے گئے ہدف سے 2.6فیصد سے زیادہ رہی۔ یہی نہیں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ریکارڈ حجم میں ترسیلات زر وطن ارسال کیں۔ اس سلسلے میں حکومت نے روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کی سہولت فراہم کرکے تارکین وطن کو ترغیب دی کہ وہ اپنی رقوم محفوظ طریقے سے ارسال کریں۔ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ مالی سال 2020-21ء کے دوران کل ترسیلات زر کا حجم 29ارب تک پہنچ جائے گا۔ ترسیلات زر کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی پوری کرنے اور پھر درآمدی بل ادا کرنے میں خاطر خواہ سہولت حاصل ہوئی۔ ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں پاکستان کے لئے متعدد مشکلات کا سبب بنی ہوئی ہیں تاہم ان پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے پاکستان جس حکمت عملی سے کام لے رہا ہے اس سے کئی معاملات درست ہونے لگے ہیں۔ ہنڈی اور حوالے کی جگہ تارکین اب بینکوں کے توسط سے رقوم بھیج رہے ہیں جس سے ملک کو فائدہ ہوتا ہے‘ اسی طرح ملک سے غیر قانونی طور پر سرمائے کی اڑان میں کمی ہوئی ہے۔ اقتصادی بہتری کے اعداد و شمار نے حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کو غیر موثر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تین سال کے دوران اپوزیشن جماعتیں پہلی بار حکومت کی معاشی کارکردگی پر ٹھوس اعتراض اٹھانے میں ناکام رہیں۔ پاکستان اپنے تمام تر مسائل کے باوجود معاشی بحالی کے لئے سرگرم ہے۔ حکومت سے متعدد غلطیاں ہوئیں۔ وزرائے خزانہ کو بار بار تبدیل کیا گیا لیکن معاشی بہتری کے تمام اشاریوں کا بہتر ہونا ثابت کرتا ہے کہ مشکلات کی نوعیت سے آگاہی ہو اور عزم مصمم ہو تو ہر شعبے میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔4فیصد کی شرح نمو کو حاصل کرنا اس مجموعی تصویر کو مثبت ظاہر کرتا ہے۔ ٹیکس محاصل‘ برآمدات میں اضافے، پیداواری شعبے کی استعداد میں بہتری‘ زرعی ،صنعتی اور خدمات کے شعبے میں متعارف کرائی گئی اصلاحات کی مدد سے معیشت کو مزید بہتر سطح پر لایا جا سکتا ہے۔