میں تو ہتھیلی پر یہ سوال رکھے نور پور شاہاں آیا تھا کہ سید شاہ عبد الطیف کاظمی ؒ کو ’’ بری امام‘‘ کیوں کہا جاتا ہے لیکن دربار کے باہر آگ تاپتے ملنگوں میں سے ایک نے میری ہتھیلی پر انگارے کی صورت ایک اور سوال رکھ دیا کہ اسلام آباد سے آئے ہو یا ’’چور پور‘‘سے؟حیرت نے ہجوم کیا اور ام مشتاق یاد آ گئیں : کمالِ عقل اک دیوانہ پن ہے۔ درہ جنگلاں میں بوہڑ کا چار سو سالہ قدیم درخت بری امام ؒ کی چلہ گاہوں میں سے ایک ہے۔ ایک روز اس کی گھنی چھائوں میں سستانے بیٹھا تو خیال آیا کہ انہیں ’بری امام‘ کیوں کہا جاتا ہے؟یہ تو معلوم ہو رہا تھا کہ ’ بری‘ کا تعلق زمین اور خشکی سے ہوتا ہے اسی لیے افواج کی درجہ بندی بھی فضائی ، بحری اور بری کے اعتبار سے کی گئی ہے لیکن سوال یہ نہیںتھا کہ بری امام کا مطلب کیا ہے ۔سوال یہ تھا کہ سید شاہ عبد الطیف کاظمی ؒ کو ’’ بری امام‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ راولپنڈی ضلع کے گزٹیر((1893-94 میں لکھا ہے کہ چونکہ شاہ عبد اللطیف کاظمی مارگلہ کے پہاڑوں میں بہت وقت گزرا کرتے تھے اس لیے ان ہیں بری امام کہا گیا یعنی پہاڑوں اور جنگلوں کا امام۔ یہی بات مارچ 1952 کے پاکستان ٹائمز کے ایک شمارے میں شائع ہونے والے فیچر بھی لکھی ملی کہ بری امام ؒ کو بچپن ہی سے جنگلوں اور پہاڑوں کی تنہائی میں رہنا بہت پسند تھا اور وہ اپنا زیادہ وقت جنگل اور پہاڑ میں گزارا کرتے تھے۔آپ کبھی جنگل کو نکلیں اور ان کی چلہ گاہوں کو دیکھیں ، ان سے خوبصورت اور حسین مقام آپ کو نہیں ملے گا۔ان کا ذوق اور مقام کا انتخاب آدمی کو حیران کر دیتا ہے۔ شکر پڑیاں گائوں میں راجہ اللہ داد خان کی حویلی ( لوک ورثہ)کے ساتھ سے جو راستہ کنول جھیل کوجاتا ہے وہاں جنگل کی صفائی میں ایک پانچ سو سال قدیم مسجدبرآمد ہوئی ہے۔ اس سے تھوڑا اوپر جائیں تو ٹیلے پر ایک تکیہ ہے۔ یہ بھی بری امام ؒ سے منسوب ہے اور روایت ہے کہ وہ یہاں چلہ کاٹتے تھے۔ اس روز ہم وہاں پہنچے تو دن ڈھل رہا تھا ،ہر سو خاموشی تھی۔ احمد اعجاز کہنے لگے ذرا تصور کریں آج سے ڈھائی سو سال پہلے اس جنگل میں اس گوشے میں سکون اور سکوت کا عالم کیا ہو گا۔ یہ بعینہ وہ سوال تھا جو بری امام ؒ کی ہر چلہ گاہ دیکھ کر میرے وجود سے لپٹ جایا کرتا تھا۔ شکر پڑیاں گائوں ہو یا نیلاں بھوتو، نور پور شاہاں ، درہ جنگلاں، درہ کوانی کہیں بھی چلے جائیے اور بری امام کی چلہ گاہ پر کھڑے ہو کر آنکھیں بند کر کے ایک لمحے کو تصور کیجیے کہ دو اڑھائی صدیاں پہلے اس جگہ پر کیسی سکینت اترتی ہو گی۔مجھے تو تصوف سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن پہاڑوں کے سناٹوں سے میں نے بہت باتیں کی ہیں اور اب میں سمجھ سکتا ہوں اللہ والے عبادات اور مجاہدات کے لیے دنیا کے ہنگاموں سے دور پہاڑوں اور جنگلوں میں کیوں جایا کرتے تھے۔یہاں تو محض جا کر بیٹھ رہنے سے عرفان ذات کے در وا ہو جاتے ہیں ، عبادات کا تو لطف ہی اور ہوگا۔ بری امام ؒ جب باگاں ( آب پارہ) کے علاقے میں آئے تو پہاڑ کے ساتھ چند میل آگے راولپنڈی سے مری جانے والی سڑک پر جنگل کے ساتھ چوروں ڈاکوئوں کے گروہ رہتے تھے جو کشمیر جانے والے قافلوں کو لوٹا کرتے تھے۔ ایسی کوئی دستاویز تو میرے ہاتھ نہیں لگی لیکن یہ روایت تکرار کے ساتھ بیان کی جاتی ہے کہ اس علاقے کا نام ’’چور پور‘‘ تھا لیکن بری امام ؒ سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے وارداتین چھوڑ دیں تو یہ نور پور بن گیا۔ نور پور شاہاں۔ میں اس شام یہی سوچ کر نور پور شاہاں آیا کہ یہاں کے لوگوں سے پوچھا جائے کیا واقعی اس علاقے کا پرانا نام چور پور تھا ۔اسلام آباد کا موسم ابھی یخ بستہ ہے۔ دن ڈھل چکا تھا اور جاڑے کی شام سخت سرد تھی۔چند ملنگ آگ تاپتے دکھائی دیے تو میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے پوچھ لیا: کیا یہاں کوئی چور پور نام کا گائوں بھی ہوتا تھا؟ ایک ملنگ نے چلم بھرتے ہوئے کہا : اب بھی ہے۔ اب بھی ہے؟ ۔۔۔۔مجھے حیرت ہوئی کہ اب بھی ہے تو کسی نقشے یا دستاویز میں اس کا ذکر کیوں نہیں۔ ملنگ زیر لب مسکرایا: اب تو اس کی بڑی رونقیں ہیں ۔ کل جہان کے چور وہاں اکٹھے ہو گئے ہیں۔وارداتیے ، ہتھ چھٹ ، جیب کترے ، لٹھ مار سب وہاں رہتے ہیں۔ مجھے لگا ملنگ کالا چٹا پہاڑ کی بات کر رہا ہے جہاں جرائم پیشہ لوگ شاید اب بھی موجود ہوں۔اس لیے میں نے اصلاح کی کہ میں مارگلہ کی بات کر رہا ہوں۔ چور پور گائوں ادھر مارگلہ میں کہیں تھا۔ ملنگ نے چھوٹے سے حقے کا کش لگایا اور کہا : میں بھی ادھر مارگلہ ہی کی بات کر رہا ہوں۔ یہ پاس میں ہی تو ہے چور پورہ۔ تم کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا : اسلام آباد سے آیا وہوں۔ رہتے کہاں ہو؟ اسلام آباد میں۔ ملنگ نے عجیب سے بے اعتنائی سے جواب دیا : چور پورے سے آ کر نور پورے والوں سے پوچھتے ہو کہ چور پور کہاں ہے؟وہی تو چور پور ہے جہاں تم رہتے ہو۔ اسلام آباد میں اسلام تو کہیں نہیں نظر آتا ، چور ہی چور نظر آتے ہیں۔ ملنگ مزے کا تھا۔ اب وہ بھی کچھ کھُل گیا تھا اور میں بھی اس ٹولی کا مزاج سمجھ گیا تھا۔ ان کی ناقابل یقین کہانیاں سن کر میں واہ واہ کرتا رہا اور بیچ میں کوئی اپنا سوال بھی پوچھتا رہا۔اٹھنے لگا تو ملنگ نے پوچھ لیا: تم کہاں سے آئے تھے؟ اسلام آباد سے یا چور پورے سے؟ اب میں اسے کیا جواب دیتا؟وادی میں رات اتر چکی تھی۔پہاڑوں پر اندھیرا پھیل رہا تھا اور اس تاریکی میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ میں جا کہاں رہا ہوں۔اسلام آباد یا چور پور؟