افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد پائیدارامن کا قیام کیا ممکن ہو سکے گا؟ یہ آجکل کا انتہائی اہم اور مشکل سوال ہے اور جسکا جواب تلاش کرنا بھی خاصا پیچیدہ ہے۔ افغان طالبان کے استنبول کانفرنس میں شرکت سے انکار کے بعد سے افغانستان میں امن کی صورتحال پیچیدہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افغان مسئلے کا سیاسی حل ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ سب گروہ، جنکے مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں ،اپنے زیادہ سے زیادہ فائدے کے لیے ا پنے آپشنز کو غور سے جانچ رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے انخلا کا عمل 44 فی صد تک مکمل کرلیا ہے۔ جب صدر بائیڈن نے انخلا کے شیڈول کا اعلان کیا تو افغانستان میں تقریبا 2500 امریکی اور 7000 نیٹو فوجی موجود تھے۔ تاہم انخلا کا عمل جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اس سے پاکستان کے خوف کو ہوا مل گئی ہے کہ امریکہ اپنے سفارتخانے کے تحفظ کے لیے کابل میں محدود فوج چھوڑ کر جولائی اگست تک زیادہ تر واپسی مکمل کرسکتا ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق امریکہ 4 جولائی تک افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لے گا مگر یہ ایک قیاس آرائی ہے کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی اپنے یوم آزادی تک ایسا کرنا پسند کرسکتے ہیں۔ اسی تناظر میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے گزشتہ ہفتے کہا ہے کہ افغانستان سے اچانک امریکہ کا انخلا مثالی فیصلہ نہیں تھا اور کسی قسم کی خفت سے بچنے کے لئے پاکستان پر کسی بھی قسم کی الزام تراشی ناقابل قبول ہوگی۔ افغانستان میں پناہ گاہیں رکھنے والے پاکستانی دہشت گرد گروہ بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔پاکستان اور طالبان کے مابین حالیہ سرد مہری امریکہ کی حمایت یافتہ استنبول کانفرنس کے معاملے پر شروع ہوئی تھی ، جو ابتدا میں طالبان کی عدم شرکت کے سبب منسوخ کردی گئی تھی۔ پاکستان نے ایک بار پھر طالبان کو استنبول کانفرنس میں اپنا وفد بھیجنے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی ہے اور انکار کی صورت میں نتائج کے بارے میں بھی متنبہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، طالبان نے اتفاق کیا ہے کہ وہ کانفرنس میں تین شرائط پر حصہ لیں گے: کانفرنس مختصر ہوگی۔ ایجنڈے میں اہم امور پر فیصلہ سازی شامل نہیں ہوگی۔ اور طالبان کا ایک نچلی سطح کا وفد اس میں شریک ہوگا۔ استنبول کانفرنس میں شرکت سے طالبان کی ہچکچاہٹ اور ان کا سخت نکتہ نظر یا اس میں شرکت سے انکار اس خدشے پر مبنی ہوسکتی ہے کہ مجوزہ کانفرنس امریکہ کے ساتھ طے شدہ دوحہ معاہدے کو پس پشت ڈال سکتی ہے۔ تاہم ، میڈیا رپورٹس کے مطابق، امریکہ، کابل کے ہوائی اڈے کو محفوظ بنانے کے لئے ایک ترک فوجی دستہ متعین کرناچاہتا ہے، جس کی وجہ سے طالبان کی طرف سے ترکی کے افغانستان میں فعال فوجی کردار کے متعلق خدشات پائے جاتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ پاکستان اور طالبان کا باہمی تعلقاس وقت ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہو ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں کسی بھی وقت باہمی تعلق کے خاتمے کے قریب آرہے ہیں کیونکہ ان دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ طالبان کو اب بھی پاکستان جیسے اتحادی کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی فورموں پر سفارتی مدد فراہم کرسکتا ہے۔ جب کہ پاکستان، طالبان سے مکمل طور پر دوری کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ، کیونکہ، عالمی سیاست میں ہونیوالی نئی صف بندی کے پس منظر میں، پاکستان کا طالبان پر اثر و رسوخ باقی دنیا کے ساتھ معاملات طے کرنے میں پاکستان کی اپنی طاقت کا ایک فیصلہ کن عنصر ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ طالبان اب مزید ایک پروردہ گروہ نہیں ہیںبلکہ وہ افغانستان کے معاملے کے سیاسی تصفیہ کے لئے امریکہ سے بات چیت ہونے کے بعد وہ ایک خود مختار حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ نجیب حکومت اور مختلف افغان دھڑوں کی ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان نے طالبان کی حمایت کی تھی۔ تاہم اب، طالبان نے دوسرے علاقائی کھلاڑیوں کے ساتھ سفارتی روابط قائم کر لیے ہیں۔ لہذا ، پاکستان کو خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے کسی بھی اقدام سے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت افغانستان کے 50 فیصد حصے پر افغان حکومت کے دستے کنٹرول کر رہے ہیں ، جب کہ 30 فیصد علاقہ طالبان کے زیر قبضہ ہے اور بقیہ 20 فیصد کے لیے تگ و دوجاری ہے۔ لیکن، زمینی حقائق کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ صورت حال جلد ہی تبدیل ہوسکتی ہے اور طالبان، امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے ممکنہ خلا کو پہلے ہی سے پر کررہے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان، افغانستان سے فوجی انخلامکمل ہونے سے قبل کابل میں ایک عبوری حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں جس میں طالبان سمیت تمام افغان دھڑے شامل ہوں۔ لیکن افغان صدر اشرف غنی اپنی صدارت اور حکومت کی قیمت پر اس طرح کے کسی بھی ممکنہ سیاسی تصفیے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ امریکی عہدے دار افغان حکومت پر طالبان کے کچھ مطالبات کو ماننے کے لئے جس طرح دباؤ ڈال رہے ہیں اس سے افغان حکومت خوش نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف چین.پاکستان اور افغانستان کے وزراء خارجہ کے درمیان ہونے والے حالیہ سہ ملکی اجلاس کی کارروائی سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور چین دونوں مل کر اشرف غنی حکومت اور طالبان پر افغان مسئلے کے ایک دیرپا اور قابل قبول حل کیلیے سیاسی دباؤ کے ساتھ ساتھ معاشی امداد کی مراعات دینے کی بھی پیشکش کر رہے ہیں۔ ان تمام محرکات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹوافواج کے مکمل انخلا کے بعد افغانستان میں دیرپا امن کا قیام پیچیدہ اور کٹھن آرہا ہے جسکی وجہ سے افغانستان ایک دفعہ پھر طویل مدت کے لیے خانہ جنگی جیسی صورت حال کا شکار ہوسکتا ہے۔