’’امریکی خانقاہ‘‘ سے مراد تصوّف اور خانقاہیت کا وہ ’’امریکی یا مغربی ماڈل‘‘ نہیں ہے ،جس کی بہت سے برانچیں آج ، کل پاکستان میں بھی نظر آنے کو بیتاب ہیں۔۔۔ ،جن کا بنیادی مقصد تصوّف کو دین سے الگ کرکے دنیا کے سامنے پیش کرنا اور صوفیا کے کلام کو حقیقت سے نکال کر مجاز کے رنگ ۔۔۔اور ان کے طرزِ حیات اور اسلوبِ زندگی کو دینی غیرت اور مِلّی حمیّت سے علیحدہ کر کے، متعارف کرواتے ہوئے ،ان کو رواداری ، انسان دوستی ،اور روشن خیالی کی ایسی علامت کے طور پر پیش کرنا۔۔۔ کہ جس کا دین وفقر سے کوئی تعلق نہ ہو۔بلکہ اس سے مراد امریکہ کے معروف صوفی بزرگ محمد رحیم باوا محی الدین قادریؒ کی وسیع و عریض اور سرسبز و شاداب خانقاہ ہے، جو شاید امریکہ میں کسی بزرگ کی اولین درگاہ ہو ،جو امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں ، پیلسلوانیا کی چیسٹر کاونٹی میں --- مغرب کی جانب 40میل کے فاصلے پر واقع ہے، بابا محی الدین قادری کا آبائی تعلق سری لنکا کے تامل علاقے سے تھا، آپ سلسلہ قادریہ کے شیخ اور پیرانِ پیر الشیخ السید پیر عبدالقادر الجیلانی سے خصوصی نسبت کے حامل تھے، 1970میں امریکی سکالرز کے ایک وفد کی سری لنکا میں ان سے ملاقات ہوئی، جس میں انہیں امریکہ آنے کی دعوت دی گئی، چنانچہ آپ اکتوبر 1971میں امریکہ تشریف فرما ہوئے۔آپ صوفیانہ فکر وعمل کے امین اور اخلاص ، محبت اور للہیت کے پیکر تھے۔ علاقائی کلچر اورمقامی زبان و بیان سے آگاہی نہ ہونے کے باوجود، امریکہ میں لوگ آپ کے گرویدہ ہوئے، اور ایک کثیر تعداد نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ فلاڈیلفیا کے مضافات میں آپ کا آستاں خوبصورت اور جدید طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے، جس میں مسجد، مختصر لائبریری، کچن اور اس سے ملحق’’ لنگر خانہ‘‘ جس کو اس کی ساخت اور حُسنِ ترتیب کے اعتبار سے خوبصورت’’ ڈائننگ ہال‘‘ سے تعبیر کیا جانا زیادہ موزوں ہے۔ اعلیٰ قسم کے پیٹیز ، کیک، کنفکشنزیعنی شیرینی وغیرہ سے لے کربہترین کافی، قہوہ اور چائے اور مشروبات وغیرہ ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں، "لنگر خانے"میں کوئی لانگری،باورچی اور نگران نہیں ہوتا،خالص امریکی سٹائل میں، سیلف سروس کے اصول کے مطابق زائرین از خود تیارشدہ کھانے کی اشیاء لاتے ، محبت وعقیدت سے وہاں پیش کرتے اور اپنی مرضی اور طبیعت کے مطابق کچن سے استفادہ کرتے ، حاضری دیتے اور رخصت ہو جاتے ہیں۔بابا جی اشفاق احمد نے بھی بانوقدسیہ کے ہمراہ اس آستاں پر اپنی حاضری کو کہیں قلمبند کیا اور بانو قدسیہ کی جاروب کشی کا تذکرہ کیا تھا، 2016میں معروف دانشور ڈاکٹر ظفر اقبال نوری ، معتبر صحافی کوثر جاوید اور برادرم خالد کے ہمراہ راقم کو حاضری کی سعادت میسر آئی ، اس قریے کی سرسبزی اورشادابی کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو گئیں، مزار سے ملحق 100ایکڑ اراضی یہاں کے توسیعی منصوبوں کے لیے ہے، جس میں بلاشبہ گیسٹ ہاؤس اور سرائے وغیرہ بطورِ خاص شامل ہیں۔ مسجد میں پنجگانہ نماز کے علاوہ، اتوار کی صبح ہفتہ وار درسِ قرآن اور محفل ذکر کا اہتمام ہوتا ہے، بڑی گیارہویں کے علاوہ مارچ کے بہار آفریں ایام میں بھی بابا جی کے مریدین کا اجتماع ۔۔۔ جس میں امریکہ کے علاوہ کینیڈا کی مختلف ریاستوں سے بھی عقیدت مند روحانی تسکین کے لیے حاضر ہوتے ہیں، اس مقام پر مستقبل قریب میں، ایک بہت بڑے اسلامک سنٹر اور اسلامک سکول کے قیام سمیت دیگر علمی ، دینی ، تعلیمی اور تدریسی منصوبہ جات شامل ہیں۔ گذشتہ ہفتے امریکہ جانا ہوا، تو پاکستان ہی سے بابا جی کے مزار پر حاضری کی نیّت تھی، سپرنگ فیلڈ کے ہالی ڈے اِن میں منعقدہ انٹرنیشنل پیس مشن کے زیر اہتمام بارہویں سالانہ میلاد مصطفی ﷺ "پیس کانفرنس" ،اپنے اہتمام و انصرام کے اعتبار سے پُرشکوہ بھی تھی اور پُرکیف بھی ، جس میں معروف صوفی سکالر ڈاکٹر محمد بن یحییٰ نینوی، سفیرِ عشق رسول ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کے وقیع خطبات سے استفادہ کرتے ہوئے، نیویارک روانہ ہونا تھا، اگرچہ ورجینیا سے روانگی پاتے ہوئے، رات کافی بیت چکی تھی ، مگر۔۔۔ بہرحال یہ حاضری تو لازم تھی، یہاں کے خوبصورت اور سرسبز شاداب کھیت اور کھلیان ، کشادگی اور سبزہ۔۔۔ آنکھوں کو تراوت اور ذہن کو تازگی عطا کررہے تھے۔ اقبال نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ : فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند یہاںپر دیگر اقوام وملل اور قریوں اور کوچوں کے باشندوں کو دیکھ کر دھیان اس طرف بھی گیا کہ، دنیا کی ہر تہذیب ،سوسائٹی اورمذہب میں پاکیزگی ، طہارت اور "Purification"کی کوئی نہ کوئی سوچ، فکر اور کوئی نہ کوئی ادارہ، کسی نہ کسی صورت میں موجودرہا ہے، اوران نظام ہائے روحانیت "Mysticism"کے درمیان قدرے مشابہت کا ہونا بھی ایک فطری سی بات ہے ۔لہٰذا یورپی مصنفین اور ان میں بطورخاص مستشرقین "Orientalists"نے بھی اس پرخوب کام بھی کیا ہے اور پھر حاشیہ آرائی بھی ،کبھی تو’’تصوّف‘‘ کو عیسائی روحانیت کی پیداوار قرار دینے کی کوشش کی گئی،کبھی ہندو فلسفہ روحانیت ۔۔۔ کہیں بدھ فلسفہ اور کسی نے یونانی اثرات"Neoplatonism"سے نتھی کرنے پر زور صَرف کیا گیااور یوں کم علمی یا عیاری کی بناء پر، کبھی باپ کو بیٹا او ر کہیں بیٹے کو باپ بنا دیا ۔ انہیں حالات میں مستشرقین اور یورپی محققین کے درمیان ،انہی میں سے ،ایسے لوگ بھی سامنے آئے جن میں فرانس کے نامور سکالرما سینو "Massignon" سرِفہرست ہیں ،جنہوں نے مسلم صوفیا کی زندگیوں کے بنظرِ غائر جائزے اور صوفیانہ ادب کے دقّتِ نظر سے مطالعے کے بعد، اس امر کا واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ اسلامی تصوّف کا ماخذ قرآن اور سنتِ رسول ﷺ ہے، جس کو مسلم صوفی سکالرز نے ایک مستقل فن کے طور پر مرتب کر کے طریقت اور سلوک و تصوّف کو ایک عظیم نصاب کے طور پر مدون کرکے، ایک ایسی شاہراہ بنا دیا، جس میں مختلف منازل و مقامات کے سنگ ہائے میل، علامات اور نشانات سالک کو صراطِ مستقیم اور جادہ سلوک و ہدایت پر گامزن رکھتے ہیں۔ ماسینو کے بعد باقی مستشرقین کے طرزِ عمل میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور پھر نکلس---جو اوائل دور میں تصوّف پر عیسائی اور نوافلاطونی اثرات کا قائل تھا ،عمر کے آخری حصے میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گیا کہ :’’اسلامی تصوّف کا بنیادی ماخذ قرآن وسنت ہے ،اس نے لکھا کہ ہم اس وقت تک تصوّف کو صحیح معنوں میں سمجھ ہی نہیں سکتے ، جب تک ’’قرآن وسنت ‘‘ کو نہ سمجھا جائے ۔ دراصل مغربی دنیا ---جن کی قلبی بے چارگی اور پسماندگی کے سبب ان کی زندگیاں ویران اور بنجر ہوچکی ہیں ، او رمذہب کو اپنی زندگی سے نکال کر ،اپنی زندگی کا سفر الہامی عقائد کی روشنی میں کرنے کی بجائے، مفسد عقائد اور مخصوص عبادات ۔۔۔ جن میں زیادہ تر گیان ،دھیان اور مراقبات "Meditations"جیسی چیزوں کو اپنائے ہوئے ہیں ،اور ان کے ذریعے جب ان کی قوتِ متخیلہ ـ"Will Power"ذرا مضبوط ہوتی ہے ،تو وہ انہیں دنیاوی مقاصد اور سفلی عزائم ومفادات کے لیے استعمال کرنے کے درپئے ہوجاتے ہیں ،یہ شیطانی راستے انہیں از خود ذہنی مریض بنا دیتے ہیں ،اور حال ہی میں ایک تحقیق کے مطابق جن طبقات میں خود کشی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں ،ان میں از خود مغرب کا یہ نام نہاد ’’ما ہرِ روحانیات‘‘کا طبقہ بھی شامل ہے ،جواپنی فریسٹریشن کے ہاتھوں مجبو ر ہو کر اپنی زندگی کا چراغ گل کردیتا ہے ۔