بھارت کی اندھی جارحیت اور در اندازی کے جواب میں پاک فوج کا بہادرانہ سرپرائز ایسا تھا کہ اچھل اچھل کر آگ کے شعلے منہ سے نکالتے میڈیا کی بولتی بند ہو گئی اور جنگی ہیجان میں مبتلا ہمسائے پر بے یقینی اور شکست کا ایک سایہ سا پڑا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان بھر میں پاک فوج کے اس بہادرانہ سرپرائز پر پوری قوم رب عظیم کے حضور شکر گزار ہے اور اپنی فوج کو سلام پیش کرتی ہے۔ فضا میں وطن کی محبت سے لبریز ترانوں کی گونج دلوں میں حرارت پیدا کرتی قوم کا مورال بلند کرتی ہے اس کے ساتھ ہاتھ دعا کے لئے اٹھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے اس حساس خطے میں پائیدار امن قائم رہے۔ جنگ نہیں صرف امن چاہیے۔ گزشتہ کالم بچوں کے حوالے سے لکھا تو یہی سوچا تھا کہ اسی موضوع پر ابھی چند کالم اور لکھنے ہیں کیونکہ بات ایک کالم میں مکمل طور پر کہی نہیں جا سکتی۔ بچوں کے حقوق کے حوالے سے کئی زاویوں اور کئی ذمہ داریوں پر بات ہو سکتی ہے۔ امن بھی ایک ایسی ہی ضرورت ہے یہ ہر بچے کا حق ہے کہ اسے پھلنے پھولنے‘ خوف تباہی اور بے یقینی کے تاریک سایوں سے دور ایک مسکراتا ہوا محفوظ بچپن دیا جائے۔احمد مشتاق کا ایک دعائیہ شعر یاد آتا ہے۔ امن ملے مرے بچوں کو انصاف ملے دودھ ملے چاندی سا اجلا پانی صاف ملے کتنے سادہ سے الفاظ میں کتنی بڑی دعا اور جامع خواہش بیان کر دی ہے ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر اس کرہ ارض کے 195ملکوں میں بستے ہر گورے ‘ کالے‘ بھورے رنگ کے بچے کو امن اور انصاف میسر ہوتا چاندی سا اجلا خالص دودھ اور آلودگی سے پاک صاف پانی پینے کو ملتا تو دنیا کی صورت حال ایک خواب کی طرح آئیڈیل ہوتی۔! لیکن حقیقت اس دعا سے بہت مختلف ہے۔ دنیا کے کچھ خوش نصیب بچے امن کے آنگن میں اپنا بچپن جیتے اور جوانی کی دہلیز پر پائوں رکھتے ہیں۔ جنگوں سے تباہ شدہ زمینوں پر بچوں کو چاندی سا اجلا دودھ تو کیا ناخالص دودھ بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ آج ہی ایک روح فرسا خبر پڑھی کہ جنگ سے تباہ حال یمن جہاں برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی مہربانیوں سے یمنی بچوں پر بھوک اور قحط کو جنگ کے بدترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ خبر یہ تھی کہ غربت‘ بھوک اور جنگ کی تباہ کاری سے متاثرہ ایک مجبور اور بے کس یمنی باپ نے اپنی تین سالہ بیٹی کو خوراک اور کھانا پانی کے عوض کسی شخص سے بیاہ دیا۔ کتنی بھیانک تصویر ہے جنگ سے برباد ملکوں بچوں کی۔ کھلونے کھیلنے دودھ پینے کی عمر میں تین سالہ لاڈلی کو بابل نے آنگن بدر کر دیا۔ اس بچی کو شاید سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کو کھانا پانی ملتا رہے۔ یمن کی فاطمہ جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر بھوک کے ہاتھوں دم توڑ گئی تھی اور اس کی طرح کے سینکڑوں اور بچے جو یمن میں مسلط قحط کے بدترین انسانیت سوز جنگی ہتھیار سے سانس سانس مرتے ہیں۔ جنگ ہی کی تباہ حالی کا ماتم کرتے دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ جنگ نہیں صرف امن اس لئے کہ زندگی امن کی فضا میں ہی پھلتی پھولتی ہے: کچھ سال پہلے یاہو سرچ انجن نے ایک سروے کروایا اور سوال یہ تھا کہ وہ کیا چیز ہے جو آپ اپنے بچوں کے لئے وراثت میں چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں دنیا بھر سے یاہو(yahoo)استعمال کرنے والے صارفین نے اس ایک سوال کا جواب دیا ان میں سے نوے فیصد لوگوں کا جواب تھا کہ وہ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے لئے امن وراثت میں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ I want peace for my children and for my children.s children. امن کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے مکالمہ‘ ڈائیلاگ سفارتی کوششیں۔ ہر چینل اپنانا چاہے کیونکہ جنگوں کو شروع کرنا شاید آسان ہو مگر جنگوں کو ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں ہمیں ہماری گائیڈ میڈیم لوئس ویتنام ویڑن میموریل وال کے بارے میں بتاتے ہوئے بہت اداس اور افسردہ دکھائی دیں۔ کہنے لگیں کہ اس دیوار پر ان 14ہزار امریکی فوجیوں کے نام لکھے گئے ہیں جو ویتنام کی دس سالہ جنگ میں مارے گئے۔ کالے رنگ کی چمکتی دیوار پر جنگ میں مرنے والے فوجیوں کے نام اتنے پھیکے انداز میں لکھے گئے تھے کہ بس تحریر سی دکھائی دیتی (پڑھائی) نہیں دیتے ہیں۔ میں نے ایسے ہی سوال کر دیا کہ ویتنام میں دس سالہ جنگی ایڈونچر کے بعد کیا امریکہ کو اس پر پچھتاوا ہے کہ یہ جنگ شروع کرنا ان کی فاش غلطی تھی۔ میڈم لوئس یہ کہہ کر خاموش ہو گئیں کہ I am not Supposed to Comment on itلیکن ان کی یہ خاموشی ایک واضح جواب تھی۔1965ء سے 1974ء تک اس جنگ میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ نیپام بم کے حملے سے بچ کر زندہ نکلنے والے وہ خوف زدہ روتی چلاتی بچی کی تصویر کس کو بھولی ہو گی۔ جس کے تمام کپڑے آگ کے شعلوں سے جھلس چکے تھے اس کا گھر تباہ ہو چکا تھا ۔ نیپام بم کے شعلوں سے دور بھاگتی۔ وہ روتی چلاتی بچی ایک علامت بن گئی تھی کہ جنگ بچوں کے ساتھ کیا بدسلوکی کرتی ہے۔ دس سال کی اس جنگ میں بے شمار بچے وہ پیدا ہوئے جن کی مائیں بے بس ویتنامی عورتیں تھیں اور باپ جابر امریکی فوجی تھے انہیں چلڈرن آف وار کہا گیا۔ بدقسمت چلڈرن آف وار جنگوں کا بچا کھچا ردی سامان ہوتے ہیں۔ جنہیں کوئی قبول نہیں کرتا۔ چلڈرن آف وار کے نام سے ایک دلگداز انگریزی نظم پڑھی تھی شاعر ولیم سدرلینڈ(william sutherland)اس کا خصوصی ترجمہ کالم میں درج کر رہی ہوں۔ جنگوں کے بچے۔ وہ خواب ہیں جو کبھی پورے نہ ہو سکے۔! وہ زندگیاں جو کہیں کھو گئیں! وہ امیدیں جو پوری نہ ہو سکیں! چلڈرن آف وار۔ جنگوں کے بچے وہ درد ہیں جس کو بھی دوا نہ مل سکی۔!! وہ خیال وہ سوچیں۔ جو بیان نہ ہو سکے اور ضائع ہو گئے۔ وہ ایجادیں جو کبھی وجود میں نہ آ سکیں۔!! جنگوں کے بچے۔ جن کے بچپن کے مہ و سال ان سے بچھڑ گئے۔!جن کی جوانی جنگوں میں کہیں رل گئی! معصوم اور کمسن نازک اور کمزور! جن کے چہروں پر خوف‘ بے بسی اور بے یقینی کے گہرے سائے ہیں! جنگوں کے بچے وہ خواب ہیں جو ہمیشہ نارسا رہے!!