افغانستان میںطالبان کی فتوحات لگاتار جاری ہیں اور علاقوںکے علاقے ان کے زیر کنٹرول آرہے ہیں ۔افغانستان کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ کابل اور دیگر چند علاقوں کو چھوڑکر افغانستان کے بیشتر علاقوں کا طالبان کنٹرول سنبھال چکے ہیں اور ہر جگہ طالبان کی اتھارٹی نظرآتی ہے افغانستان کواپنے پہلے دورکی طرح پرامن ملک بنانے کیلئے طالبان اتھارٹی سڑکوں، شاہراہوں اوراہم مقامات پر چیک پوائنٹس قائم کرچکی ہے۔ طالبان یوم الفتح منانے اور اللہ کے حضورسجدہ شکربجالانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ میرے رب نے چاہاتوچند دنوں تک طالبان اس بات کاڈنکا بجائیں گے کہ ’’ہم جنگ جیت چکے ہیں اور امریکہ ہار گیا ہے‘‘ یہ الگ بات ہے کہ دجالی میڈیا طالبان کی بڑے پیمانے پراس پیش قدمی کا نام تک نہیں لے رہا۔ طالبان کی شوریٰ یا اس کے فیصلہ ساز فی الوقت قطر میں ہیں وہ جو بھی فیصلہ کرینگے طالبان افغانستان میں جہاں کہیں موجود ہیں وہ اسے قبول کریں گے۔ طالبان کا ہر رکن اپنے آپ کو پہلے ہی کی طرح اسلامی امارت آف افغانستان کا محافظ سپاہی سمجھتا ہے اوروہ اعلان کرچکے ہیں کہ 1996ء ہی کی طرح ایک بارپھر افغانستان میں شریعت کا نفاذ کرکے 9/11 کے حملوں کے بعد افغانستان پرچڑ ھ آئے امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کے ہاتھوں تباہ حال اوربرباد ہوئے افغانستان کو امن کاگہوارہ بنایں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 90 فیصد افغانستان پر طالبان واپس لوٹ آئے ہیں اوراپنی رٹ قائم کرچکے ہیں وہاں ہرسو امن وامان کاماحول قائم ہوچکا ہے۔ ان علاقوں کے عوام امن لوٹ آنے ،سکیورٹی قائم ہونے اور جرائم میں کمی پر افغانستان کے امین اور محافظین طالبان کے شکریے میں رطب اللسان ہیں ۔ افغانستان پردوبارہ کنٹرول سنبھالنے پرطالبان کو ہر طرف خوش آمدید کہاجارہا ہے۔ عوام یہ کہتے ہوئے طالبان کی بھرپورحمایت کررہے ہیں کہ امارت اسلامیہ اٖفغانستان کے سقوط کے بعد انہوںنے غیر ملکی افواج کے ہاتھوںبہت نقصان اٹھایا ہے اور بڑے دکھ جھیلے ہیںلیکن طالبان کے واپس آنے اور امن قائم ہونے پر وہ شاد ہیں اوراپنے جان ومال کو وہ کامل طور پر محفوظ سمجھتے ہیں۔ کابل سمیت جوچندعلاقے ابھی تک طالبان کے کنٹرول میں نہیں ہیں اگرچہ ان علاقوں کوغنی حکومت کنٹرول کرتی ہے لیکن طالبان ان کا چاروں اطراف سے گھیرائو کئے ہوئے ہیں، یہ ایساگھیرائو ہے کہ جب وہ چاہیں اندر داخل ہو سکتے ہیں تاہم طالبان نہیں چاہتے ہیں کہ وہ ان افغانوں کیساتھ لڑائی میں الجھیں کہ جنہوں نے غنی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ طالبان چاہتے ہیں کہ ان علاقوں میں بھی غنی سرکار کی فورسز باقی علاقوں کی طرح طالبان کے سامنے خود سپردگی اختیاکرکے طالبان کے پاس اپنے اسلحہ جمع کرائیں۔واضح رہے کہ غنی سرکار کی فورسز ٹینکوں سمیت ہرقسم کے ہیوی اورلائٹ ہتھیار سمیت طالبان کے سامنے سپرانداز ہوکرخودسپردگی کر رہی ہیں۔ طالبان کاموقف ہے کہ افغانستان کو پر امن ملک بنانے کے لئے غیرملکی افواج یہاں سے واپس چلی جائیںاورافغانستان ان کے سپرد کیا جائے کیونکہ جب2001ء میںامریکہ نے نیٹوکی افواج کیساتھ افغانستان پرجارحیت کی تھی تواس وقت افغانستان مکمل طور پرایک پر امن ملک تھا اوراس کی باگ و ڈور طالبان کے ہاتھ میں تھی تواصول اور ضابطہ یہی کہتاہے کہ جن سے افغانستان چھیناگیاتھا ان ہی کویہ ملک واپس کیا جاناچاہئے ۔ طالبان نے امریکہ کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج پر حملے بند کر دئیے ہیں، لیکن غنی حکومت کی رکاوٹوں کے خلاف ان کی جنگ جاری ہے۔ اس طرح کی کسی بھی رکاوٹ کے خلاف وہ جنگ جاری رکھنے کا باضابطہ اعلان کرچکے ہیں۔ طالبان غنی حکومت جسے وہ کابل انتظامیہ کہتے ہیں سے خوفزدہ نہیں۔ طالبان اسے بدعنوان اور غیر اسلامی انتظامیہ سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اب اس انتظامیہ کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں کہ وہ طالبا ن کی فتوحات کے سامنے روڑے اٹکائے ۔ طالبان اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ کابل انتظامیہ کا کوئی بھی ہلکار ان کے خلاف لڑنے کی سکت نہیں رکھتاکیونکہ کہاں امریکی اورنیٹو افواج اور کہاں غنی انتظامیہ کے ہرکار۔ امریکی اورنیٹوافواج کے جسم کے چیتھڑے اوران کی وردیوں کے ٹکڑے ابھی بھی افغانستان کی جاڑیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن اس سب کوعین الیقین سے دیکھنے کے باوجود غنی سرکار کا کوئی اہلکار طالبان سے الجھنے کی غلطی کربیٹھتاہے توطالبان اس کے خلاف برابر لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اس کامحاسبہ نہ ہوجائے ۔ مشہور ہے کہ جہاںامریکہ گھس گیا وہاں سے وہ پھر نکلتا نہیں۔علیٰ ہذاالقیاس اس وقت دنیا کے 180 ممالک میں امریکہ کے دو لاکھ سے زائد فوجی موجود ہیں لیکن ویتنام جنگ میں شکست کھانے کے بعد افغانستان وہ واحد ملک ہے اوریہ امریکہ کی دوسری جنگ تھی کہ جواسے بہت مہنگی پڑی اور طالبان نے ا سے چھٹی کادودھ یاد دلایا اور اس کے دانت کھٹے کر کے اسے یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ افغانستان میں امریکہ کواس قدرجانی ومالی نقصان ہوا کہ اس کا کوئی حساب نہیں۔ اکتوبر2001ء میں امریکہ نے طالبان کی امار ت اسلامی کو بیدخل کرنے کیلئے افغانستان پر حملہ کیا اور اس کیلئے اس نے 9/11 کے حملوں کوجواز بناتے ہوئے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کومورد الزام ٹھرایا اورطالبان کی امارت اسلامی سے متعلق کہاکہ وہ نائن الیون حملوں سے وابستہ افرادکو پناہ دئیے ہوئے ہیں ۔ امریکہ کی طرف سے جو سرکاری اعداد و شمار پیش ہوتے رہے ان کے مطابق2001ء میں افغان طالبان سے جنگ کے آعاز سے اب تک آنے والی مجموعی لاگت822 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں اکتوبر 2001ء سے ستمبر2019ء تک مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے جبکہ آزاد ذرائع امریکہ کے ان اعداوشمار کوجھوٹ کاپلندا قرار دے رہے ہیں۔ براؤن یونیورسٹی کے ’’کاسٹ آف وار‘‘ منصوبے میں ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی جنگ کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار کافی حد تک کم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس نے افغانستان اور پاکستان میں آپریشنز کے لیے 978 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔جبکہ امریکی اعدادوشمارکے مطابق اب تک امریکی افواج کو2300 سے زیادہ ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کارروائی میں 20660 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔لیکن آزاد ذرائع اسے بھی غلط قراردے رہے ہیں۔