چھوٹے ملکوں میںسی آئی اے کے ذریعے ’ رجیم چینج ‘اور نا پسندیدہ شخصیات کو جسمانی طور پر راستے سے ہٹائے جانے جیسے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔خود ہمارے ہاں روزِ اول سے حکومتوں کے بننے اور گرنے میں امریکی اثر ورسوخ شامل رہا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں امریکی سفیر کو ’وائسرائے‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔نواز شریف اپنے دوسرے دورِ حکومت میں صدر کلنٹن کیلئے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار تھے۔ہر فوجی حکمران نے تائید و حمایت کے لئے امریکہ ہی کی طرف دیکھا۔ اکیسویں صدی طلوع ہوئی تو وطن عزیز میں امریکی مداخلت کی نو عیت بدل گئی۔ انتہا پسند’جہادی ‘ جتھے پلٹ کر مغربی دنیا سے ٹکر اچکے تھے۔ چین ایک بڑی عالمی طاقت بننے کو ابھرچکا تھا۔ سال 1999 ء میں امریکہ بھارت سٹریٹیجک پارٹنر شپ کی بنیاد رکھی گئی کہ جس کا بنیادی ہدف خطے میں چینی اثر و رسوخ کو محدود کرنا تھا۔اسی باب میں نواز شریف کو بیک ڈور سفارت کاری کے ذریعے بھارت سے تعلقات میں بہتری تو دوسری طرف افغانستان میں امریکی احداف کے حصول، بشمول اسامہ دن لادن کی گرفتاری کے لئے خفیہ منصوبہ بندی کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ کارگل نے مگر سارا کھیل بگاڑ کر رکھ دیا۔مشرف آئے توکلنٹن نے ان کے ساتھ تصویر تک کھنچوانے سے انکار کر دیا ۔ وہی مشرف بعد ازاں امریکہ کے قریب ترین اتحادی بن گئے۔ مشرف گئے تو دہشت گردی سے برسرِ پیکارپاک فوج اورافغانستان میں موجود اتحادی افواج میںبد اعتمادی بڑھتی اور تعلقات کشیدہ ترہوتے چلے گئے۔ پاکستان پر دوغلی پالیسی کا الزام لگایا گیا۔ سلالہ جیسے واقعات رونما ہوئے۔ زرداری صاحب کے دور میںپاکستان کے اندر سی آئی اے اور اس کے پرائیویٹ ایجنٹوں کا نیٹ ورک امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کی مدد سے قائم کیاگیا۔راتوں رات این جی اوزملک کے طول عرض میں کھنبیوں کی طرح اُگ آئیں۔ اچانک کہیں سے ’سول سوسائٹی‘ وجود میں آگئی۔انصاف کے سیکٹر میں اسٹیبلشمنٹ مخالف چھاپ رکھنے والے مخصوص وکلاء گروہ کی سرپرستی شروع کر دی گئی۔ رفتہ رفتہ ملک کی تمام اہم وکلاء تنظیموں پر اس گروہ کی گرفت مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔اسی دوران نو خیز الیکٹرانک میڈیا میں’میڈیا سٹار‘ ابھر آئے تھے۔اسٹیبلشمنٹ مخالف میڈیا سٹارز کومغربی سفارت خانوں میںہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ سال 2008ء میں نواز شریف پاکستان لوٹے تو لائن آف کنٹرول پر کھڑے ہو کر انہوں نے پاک فوج پر کشمیریوں کی جدوجہد کو بھارتی فوج سے بڑھ کر نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔نیا جنم لینے والے نواز شریف نے سیفما کے پلیٹ فارم سے اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد محض ایک فرضی لکیر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چو مکھی جنگ لڑنے میں بُری طرح الجھی ہوئی تھی کہ سردیوں کی ایک رات لاہور کے مڈل کلاس پڑھے لکھے شہری عمران خان کو سننے کے لئے مینارِ پاکستان کے وسیع میدان میں امنڈ آئے ۔عمران خان نے سیاسی سٹیٹس کو میں تلاطم تو برپا کر دیا، تاہم 2013ء کے انتخابات میںوہ اپنی مقبولیت کو انتخابی کامیابی میں منتقل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ نواز شریف اقتدار میں لوٹے توجہاں دفتر خارجہ اور عسکری قیادت سے بالا بالابھارتیوں سے خفیہ ملاقاتوں اور ذاتی تعلقات از سر نواستوار کر نے کی پالیسی اختیار کی تو وہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ پرمختلف طریقوں سے دبائو بڑھائے جانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بظاہر حکومتی ایماء پرہی ایک بڑا میڈیاگروپ ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر حملہ آور ہوا۔نواز شریف کی مغرب نواز پالیسیوں کو دیکھ کر مغربی لبرلز کا ترجمان انگریزی اخبار بھی ان کی پشت پر کھڑا ہو گیا۔انتخابات سر پر آئے تو عمران خان مقبولیت کے عروج پر تھے۔جہاں کچھ خلا تھا تو وہیں اُ ن کیلئے ’ الیکٹیبلز‘ کا بندوبست کر دیا گیا۔ سال 2018 ء میں عمران خان نے حکومت سنبھالی تو انہیں ’سلیکٹیڈ وزیراعظم‘ کا نام دیا گیا۔ ملک اور بیرونِ ملک بھارتی اورپاکستان مخالف مغربی لابیوں میںوہ اسی نام سے پکارے جاتے۔سیاسی جماعتوں، میڈیا، انصاف کے سیکٹر اور نام نہاد سول سوسائٹی میںاسٹیبلشمنٹ مخالف عناصر روزِ اوّل سے اُن کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے۔ اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات میں ریلیف حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد اکتوبر 2020ء میں نواز شریف نے عسکری قیادت کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عسکری قیادت پرتنقید کے ذریعے اہم افراد کو دبائو میں لانے کا سلسلہ شروع کیاگیا۔معمولی اکثریت کے باوجود عمران حکومت اگرچہ نا صرف قائم رہی بلکہ اہم امور پر قانون سازی میں غیر متوقع کامیابیاں بھی سمیٹتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت مخالف تحریک دم توڑ گئی، تاہم گمان یہی ہے کہ دو بڑے میڈیا ہائوسز،ہزاروں سوشل میڈیا اکائونٹس اور انصاف کے سیکٹر میں موجود مخصوص عناصر کی حمایت سے اپنی بقا کی جنگ لڑنے والے سیاسی خاندان عسکری الیٹ (Elite) کو کسی نا کسی حد تک دبائو میں لانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ صورتِ حال میں جوہری تبدیلی اس وقت واقع ہوئی جب جو بائیڈن کو صدر کا عہدہ سنبھالنے کے فوراََ بعد افغانستان سے امریکی افواج کے ذلت آمیز انخلاء کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہی جو بائیڈن تھے جو بحیثیت امریکی نائب صدر ، زرداری دور میںپاکستان میں سویلین بالا دستی کے نام پر پر کشش مالی امداد کے روح رواں رہے اور انہی کے ہاتھوںہلالِ پاکستان سے نوازے گئے تھے۔ افغانستان سے انخلاء میں پاکستان کی طرف سے پورے تعاون کے باوجود امریکہ خطے سے اپنی پسپائی کیلئے پاکستان سے ناراض تھا۔وزیرِ اعظم عمران خان کے کچھ ماضی تو کچھ حالیہ غیر محتاط بیانات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔چنانچہ میڈیا، انصاف کے سیکٹر،اور دیگر شعبوں میں کار فرماعمران حکومت اور اس کی ’سر پرست‘ سمجھی جانے والی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف برسرِ پیکار نیٹ ورک ایک نئے ولولے کے ساتھ متحرک ہو گیا۔ صدر بائیڈن نے جہاں ایک طرف وزیرِ اعظم پاکستان سے فون پر روائتی کال تک کرنے سے انکار کر دیا تو وہیں لندن اور پاکستان میں سرگرمیوں اور ملاقاتوں میں تیزی آگئی۔ اس دوران عسکری عہدوں پر کچھ تبدیلیوں نے بھی بظاہر تعلقات میں دراڑ ڈال دی۔ ملکی معاملات میں تساہل اور نا اہلی کا تاثر مضبوط اور مہنگائی کا عفریت بے قابو ہو چکا تھا۔نظر آنے لگا کہ عمران خان مقبولیت ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ کی تائید بھی کھو چکے ہیں۔اتحادیوں کا معاملہ تو کچھ اور تھا تاہم ان حالات میں دوسری پارٹیوں سے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے پنچھیوں کے باب میں جس درجے پر معاشرتی اور سیاسی حرکیات کے ادراک اور معاملہ فہمی کی ضروت تھی، عمران خان اپنی بے جا خود اعتمادی، اسٹیبلشمنٹ پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور کچھ اپنی فطری Arrogance کی بناء پر اس کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت آسمان کو چھو رہی ہے، جبکہ دوسری طرف پورا سسٹم ان کے خلاف کھڑا نظر آرہا ہے۔ تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقاتِ کار منقطع ہیں، امریکہ کے خلاف انہوں نے طبلِ جنگ بجا دیا ہے،جبکہ عسکری قیادت کئی وجوہات کی بناء پر امریکہ سے مخاصمت مول لینے کو آمادہ نظر نہیں آتی۔ اندریں حالات عمران خان کی اقتدار میں واپسی کا راستہ روکنے کے لئے ہر حربہ کام میں لایا جائے گا۔دکھائی تو یہی دیتا ہے کہ پاکستانیوںکا مستقبل آنے والے کئی عشروں تک خطے میںامریکی اور ملک کے اندر طاقتور الیٹ گروہوںکے مفادات کے تابع رہے گا۔