صاحبو! اب بات کچھ یوں ہے کہ وبا میں بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ لاک ڈائون نے تو سب کچھ ناک ڈائون کر رکھا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے بھی ہیں اور اکتائے ہوئے بھی۔ حکومت نے عمران خاں کی ایما پر درست فیصلہ کیا ہے کہ چاروں صوبوں کی مشاورت سے سوموار سے لاک ڈائون میں نرمی لائی جائے گی مگر کاروباری لوگ اس قدر تنگ آئے ہوئے کہ تنگ آمد بجنگ آمد والا معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ انہیں تھوڑا سا صبر کر لینا چاہیے مگر وہ بضد ہیں کہ وہ 9مئی ہی کو دکانیں کھولیں گے ۔ حالات پہلے جیسے نہیں رہے تو اب ہمیں بھی اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ دیکھا جائے تو لاک ڈائون میں نرمی حکومت کی طرف سے کڑوا گھونٹ بھرنے کے مترادف۔ اس کا احساس اب دکانداروں اور عوام دونوں کو کرنا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اودھم مچا دیا جائے اور تمام احتیاطی تدابیر ایک طرف رکھ دی جائیں اور پھر حکومت خدا نہ کرے بگڑتے حالات دیکھ کر دوبارہ لاک ڈائون کا اعلان کر دے۔ اور اگر ایسا ہوا تو وہ لاک ڈائون بھی کرفیو جیسا ہو گا اچانک باقی صدیقی کا شعر یاد آ گیا کہ اگر زیادہ میل جول سے پرہیز نہ برتا تو پھر کہنا پڑے گا: اور جا جا کے تم ملو اس سے لو سلام و پیام سے بھی گئے میرا خیال ہے کہ دکاندار نفع نقصان سمجھتے ہیں وہ سماجی فاصلوں کا خیال رکھیں گے۔ ویسے بھی آج کل آن لائن چل رہا ہے چلیے دکانوں پر کم سے کم رش ہونے دیں۔ وہ لوگ بھی جو دکانوں پر جی بھر کر ونڈو شاپنگ کرتے ہیں خدا کے لئے ذرا پرہیز کریں۔ کچھ تو ایک روز صرف اشیا کے بھائو معلوم کرنے نکلتے ہیں اور خریدنے کے لئے دوبارہ آتے ہیں۔ اگرچہ عید سر پر آ رہی ہے لیکن ایسے حالات میں وہ جوش اور جذبہ لوگوں میں نہیں کہ ہر کوئی سوچے گا نئے کپڑے پہن کر جائوں کہاں؟ پھر بھی عید کی ایک خوشبو ہے ایک گلیمر ہے۔ خاص طور پر بچے تو نئے کپڑے ہی پہنیں گے اور آپ سے عیدی بھی لیں گے یہاں تو کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ ظاہر ہے کچھ کمائی ہو گی تو عید کے اخراجات نکلیں گے۔ کچھ غریب غربا کا بھی تو حق ادا کرنا ہے اور یتیم بچوں کو پوچھنا آقاؐ کی خوشگوار سنت ہے۔ خیرات و صدقات اور زکوٰۃ یہ کتنا بڑا سماجی عمل ہے یہ الگ بات کہ کھانے والے ہماری زکوٰۃ بھی زبردستی کھا جاتے ہیں اگر اہتمام کیا جائے تو واقعتاً لینے والے نہ رہیں۔ اپنے مال کو پاک کرنے کا یہ عمل تیقن پر بنیاد کرتا ہے۔کمپیوٹر اور کلکولیٹر بتاتا ہے کہ پیسے کم ہو گئے اللہ جو حاکم الحاکمین ہے کہتا ہم نے بڑھا دیے ہیں اور پھر بڑھا تے بھی کیسے کہ جیسے ایک دانے سے سات بالیاں اور ہربالی میں سو دانے اور اس کا اجر تو وہی جانتا ہے۔ رمضان شریف میں جہاں روزے کا ثمر صرف اللہ کے پاس کہ یہ خالصتاً اسی کے لئے ہے وہاں ہمارے صدقات و خیرات کا بھی خاص اجر ہے۔ ماشاء اللہ اس وقت کئی تنظیمیں بھی متحرک ہیں جو آپ کے دیے ہوئے پیسے جائز اور درست جگہ پر لگائیں گی۔ الخدمت ‘ اخوت‘ شوکت خانم‘ غزالی ٹرسٹ‘ سندس اور دوسری کئی تنظیمیں ہیں۔ اس حوالے سے مجھے فلاح انسانیت فائونڈیشن بہت شدت سے یاد آئی کہ میں بھی ہمیشہ انہیں پیسے بھجواتا مگر کچھ طاقتوں کو ہماری بھلائی مطلوب نہیں۔ وگرنہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے حوالے سے غیر ملکی تنظیمیں بھی رطب اللسان تھیں کہ وہ آفت زدہ اور متاثرہ علاقوں میں سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔ بہرحال خیر کا عمل رک نہیں سکتا جو کر رہے ہیں انہیں اللہ جزا دے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رمضان کو قیمتی بنائیں کہ یہ انعام کی گھڑیاں ہیں مجھے تو سب سے اچھا وقت وہ لگتا ہے جب میں اپنے بچوں اور فیملی کے ساتھ بیٹھ کر سحر اور افطار کرتا ہوں۔ خاص طور پر افطار کے لمحات تو کمال کے ہوتے ہیں۔ انواح و اقسام کی اشیا میز پر اور بچوں کی آنکھوں میں انتظار کی گھڑیاں، اٹھ اٹھ کر باہر جاتے ہیں کہ سائرن کی آواز آ جائے یہ سب معصوم سی باتیں اچھی لگتی ہیں ان کا روزہ رکھ کر لمبا سونا اور پھر ماں کے اردگرد گھومنا کہ افطاری کی تیاری کروائیں سب بہت دلپذیر ہے۔ بچوں کے ہاتھ سے خیرات بھی کروانی چاہیے تاکہ انہیں اس عمل سے لگائو پیداہو۔ میرے چھوٹے بیٹے نے اپنے پیسوں میں سے دس روپے فقیر کو دیے تو میں حیران رہ گیا۔ بہرحال لاک ڈائون کے ختم ہونے پر سب خوش ہیں ساتھ ساتھ تھوڑے سے گھبرائے ہوئے بھی ہیں۔ کچھ مزے مزے کی پوسٹیں لگا رہے ہیں۔ ایک نے لکھا ہے کہ سکول تو 15جولائی کو کھلیں گے جبکہ جوتوں کی دکانیں ابھی کھل رہی ہیں اس کا مطلب ہے کہ ہمیں جوتوں کی زیادہ ضرورت ہے ویسے ایسے حالات میں جوتے مہنگے بھی پڑیں گے ۔ کسی نے لکھا ہے کہ لاک ڈائون کے حق میں بات کرنے والے وہ ہیں جو اپنے دکھ پر دکھی نہیں ہوتے بلکہ دوسرے کے سکھ پر دکھی ہوتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ سوائے دکانیں وغیرہ بند ہونے کے باقی کچھ دنوں سے لاک ڈائون کی عملی ضرورت تو کہیں بھی نہیں۔ نوجوان دن کو مٹر گشت اور رات کو کرکٹ کھیلتے ہیں۔ کچھ تو سخت لاک ڈائون میں بھی معائنے کے لئے گلیوں میں گھومتے تھے۔ جو بھی ہے عمران خاں تو خاص تبدیلی نہ لا سکے مگر کورونا نے ضرور بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ مردوں کو بھی گھر بٹھا دیا عورتوں کو پہلے ان کا باہر رہنا برداشت نہیں تھا اب ان کا گھر چپک کر بیٹھنا بھی نہیں بھاتا۔ انسان کسی حال میں بھی خوش نہیں۔ میں حیران ہوں کہ ان دنوں عارفہ خاں نے ایک تنظیم بنا ڈالی کہ مردوں کو عورتوں کے برابر حقوق دیے جائیں ۔ نہیں میں غلط لکھ گیا۔ اس نے صرف مردوں کے حقوق کی بات کی ہے۔ ظاہر مردوں کے حقوق کی بات عورت ہی کر سکتی ہے۔ وگرنہ مرد تو عورتوں کے حقوق کو بھی اپنا حق سمجھتے ہیں دیکھیے بات کدھر سے کدھر نکل گئی بس لاک ڈائون کے ختم ہونے پر خود کو زیادہ کھلا نہ چھوڑیں۔ ویسے احتیاط کے تو آپ کچھ نہ کچھ عادی ہو ہی گئے ہونگے۔ منیر نیازی کا ایک پیارا سا شعر: ہم بھی گھر سے منیر تب نکلے بات اپنوں کی جب سہی نہ گئی