اب سن یاد نہیں آرہا لیکن یہ خوب یاد ہے کہ کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں ہفت روزہ تکبیرکے مدیر صلاح الدین شہید کے یوم شہادت کا پروگرام تھا، جنرل حمید گل صاحب بھی اس پروگرام میں مدعو تھے۔ ہم ان دنوں ایک اردو روزنامے سے وابستہ تھے اور اس اخبار میں کام کرتے تھے جس کے مالک و ایڈیٹرکے جنرل صاحب سے قریبی مراسم تھے وہ انہیں انکل کہا کرتے تھے اور ان کا گھر کے کسی بڑے کی طرح ہی احترام کرتے تھے، حمید گل صاحب اک مخصوص مزاحمتی سوچ کے علمبردار تھے ۔جہاد افغانستان میں ان کا کردار کسی سے پوشیدہ نہ تھا ہوٹل کا ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔انہوں نے حسب توقع انکشافات سے بھرپور تقریر کی اور ڈھیروں تالیاں سمیٹ کر اپنی نشست پر براجمان ہوگئے۔ میں موقع دیکھ کر جھٹ سے ان کے پاس پہنچ گیااورعرض کیا جنرل صاحب !گستاخی معاف مجھے اک بات سمجھ نہیں آتی کہ بیوروکریٹس ہوں یا جرنیل ، یہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہی سچ کیوں بولتے ہیں؟ یہ سخت سوال تھاجس کا بوجھ نوجوان صحافی کا کیرئیر اٹھانے سے قاصر تھا،جنرل صاحب اس اخبار کے ایڈیٹر کو اشارہ بھی کردیتے تو دوسرے دن اخبار کا سکیورٹی گارڈ مجھے سیڑھیاں چڑھنے سے روک کرنیوز روم کے بجائے شعبہ حسابات کی راہ دکھاتا کہ جاؤ میاں! اپنا حساب کتاب لے لولیکن جنرل صاحب بڑے ظرف کے بڑے آدمی تھے ۔انہوں نے خندہ پیشانی سے میری بات سنی اور سمجھانے لگے کہ فوج کا اپنا ایک ڈسپلن اورکسی نکتہ ء نظرسے اختلاف کا طریقہ ہوتا ہے۔ اس میں کسی بات پر ایک حد تک ہی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی عرض کیا اگر اختلاف اصولی ہو تو بندہ مستعفی کیوں نہیں ہوجاتا ؟جنرل صاحب نے مجھے سمجھایا لیکن مجھے سمجھ نہیں آیاجس کے بعد جنرل صاحب میرے سوالات سے بچنے کے لئے خاموش ہورہے ۔ کہتے ہیں مکا وہی زبردست ہوتا ہے جو موقع ملتے ہی حریف کوناک آؤٹ کردے اگر وہ ہارنے کے بعدیاد آئے تو چہرے کی سِکائی کرتے ہوئے اسے اپنے ہی چہرے پرمار لینا چاہئے ۔یہ مکا مجھے ہر اس اعتراف میں یاد آتا ہے جوکسی بھی صاحب اختیارکے’’ بے اختیار‘‘ ہونے کے بعد کیا جائے،آج کل عمران خان صاحب بھی یہی کررہے ہیں ۔وہ زمان پارک میں کبھی پسندیدہ صحافیوں سے ملاقات اور کبھی کسی ملکی یا غیر ملکی نیوز چینل کے سامنے کسی نہ کسی راز کا انکشاف کرتے پائے جاتے ہیںاورہم اسی بات پر حیراں ہیں کہ عمران خان صاحب تو روائتی سیاست دان نہیں تھے ۔انہیں ماں باپ سے وراثت میںسیاست کی جاگیر ملی نہ انہوں نے سیاسی سفر کے آغاز میںمقتدر اشرافیہ کی بیساکھیاں بغلوں میں دبائیں ، وہ بالکل مختلف ،معزز اور معتبر تھے۔ ان کا یہ اعتبار ایسا تھاکہ ان کی زبانی سابقہ رنگین زندگی کا اعتراف بھی ختم نہ کرسکا بلکہ یہ اعتراف ان کی انفرادیت ٹھہرا، ان کی اس ادا پر ان کے چاہنے والے مر مٹے کہ کیا کھرا اور بڑا بندہ ہے۔ خان صاحب نے کلب نائٹس کے رت جگوں،ساحلوں پر غسل آفتابی اور تتلیوں سے بھرے فارم ہاؤس کے تالابوں میں پیراکی ۔ عمران خان کبھی کسی بات کے منکر نہیں ہوئے ۔گزشتہ دنوں بھی انہوں نے ایک انٹرویو میں اپنے پلے بوائے رہنے کا اعتراف کیا۔ ان ہی کے مطابق ملک کی اک مقتدر شخصیت نے ان پر پلے بوائے کی پھبتی کسی اور جواب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ہاں ! میں پلے بوائے رہا ہوں۔۔۔ان کے اس اعتراف پر اللہ بخشے بھٹو مرحوم یاد آگئے ،انہیں انگوروں سے رغبت تھی یا نہیں اس بارے میں علم نہیںلیکن ان کی انگور کی بیٹی سے خوب بنتی تھی۔ 1977ء میں انتخابات ہورہے تھے ۔کسی نے ان کی مہ نوشی پر پھبتی کس دی۔ وہ بھنّاگئے اورایک جلسے میں کھلے بندوں کہہ گئے ہاں! میں شراب پیتا ہوں غریب عوام کا خون تو نہیں پیتا۔۔۔ خان صاحب نے بھی یہی کیا ۔اپنی رنگین مزاجی کا اعتراف جو کرنا تھا سو کر گئے ساتھ ہی حال ہی میں ریٹائرہونے والی ایک مقتدر شخصیت کے مسّے بھی نوچ ڈالے۔ ایک بار پھر کہا کہ’’ انہوں‘‘ نے احتساب نہیں کرنے دیا وہ شفاف احتساب کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ ان کے فرمان پر عمران خان کے چاہنے والوں کو رتّی برابر شک نہیں ہوگا ان کے معتقدین تو اس بارے میں کسی مشکوک خیال کے آنے پر وضو بھی فسخ سمجھتے ہیں۔ شک پر تو گال پیٹ پیٹ کر توبہ کر ڈالتے ہیں کہ ایک ایسی بھلی مانس نیک روح جس کی ساری حیاتی رنگین تھی اسے کیا پڑی تھی کہ وہ سیاست کی راہ پرخار پر برہنہ پا چلنے آتا۔۔۔ یہ وہ سب سے مضبوط و موثر دلیل ہے جو عمران خان کے ہر سیاسی معتقد کے لبوں پر دھری رہتی ہے لیکن گستاخی معاف صرف اک بات کا جواب دے دیجئے کہ خان صاحب آپ تو آئے ہی احتساب اور انصاف کے نعرے پر تھے جب آپ کو احتساب ہی نہیں کرنے دیا گیا تو آپ نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کرکے کرسی چھوڑنا مناسب کیوںنہ جانا؟ آپ کے نزدیک تو اقتدار کانٹوں کی سیج تھا پھر آپ اس سیج پر کیوں لیٹے رہے ؟ تین حرف بھیج کرایوان وزیر اعظم ہاؤس سے بنی گالہ آنے والے سرکاری ہیلی کاپٹر کو واپس کیوں نہ بھجوایاکہ بس اب یہ آنیاں جانیاں نہیں ہوں گی ، سمجھ نہیں آتا کہ اس میں کیا امر مانع رہا ؟وہ ایسا کر بیٹھتے تو تاریخ میں ہی امر نہ ہوتے مستقبل بھی ہاتھ میں رکھ لیتے ،ہم نے تو دیکھاکہ آپ نے اپنااقتدار بچانے کے لئے کیا کیا جتن نہ کئے۔ پنجاب کا تخت لاہور اس جماعت کو ہدیہ کردیا جس کے پاس پنجاب اسمبلی میں گن کر دس نشستیںتھیں،گستاخی معاف پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ کے لئے یہ اقتدار کیوں اہم اور اس وقت سچ کہنا غیر اہم رہا ؟کس بات نے احتساب دشمن قوتوں کے ساتھ برسراقتدار رہنے پر مجبورکیا۔ کاش آپ اس وقت سچ کہہ دیتے تو آج’’ دلوں کے حکمران‘‘ ہوتے آپ نے اپنا اقتدار بچانے کی ہر کوشش کی اور جب ناکام ہوئے تو انگورکھٹے ہوگئے!!!