عالمی شہرت یافتہ کافی گائیک پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد ہے اور سن پیدائش 1926ء تاریخ وفات 9 اپریل 2000ء ہے ۔ پٹھانے خان نے عارفانہ کلام، لوک گیت، صوفیانہ کلام اور کافی میں وہ نام کمایا جو شاید ہی کسی کو نصیب ہو۔ ریڈیو پاکستان ملتان سے اپنے فن کا آغاز کرنے والے سپوت کو فن گائیکی کی بدولت صدارتی ایوارڈ، پی ٹی وی ایوارڈ، ملینیم ایوارڈ اور خواجہ غلام فرید ایوارڈ جیسے بڑے بڑے ایوارڈوں سے نوازا گیا ۔ پٹھانے خان نے کئی دہائیوں تک اپنی سریلی آواز کا جادو جگایا ۔ حکومت نے انہیں 1979ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ ایک شعر ’’ نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا ، سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا ‘‘ کے مصداق پٹھانے خان کو یہ مقام و مرتبہ بہت ہی محنتوں کے بعد ملا ۔ انہوں نے بہت ریاض کیا ۔ ان کے اول استاد بابا میر خان تھے ، اس کے علاوہ بھی وہ بہت ریاض کرتے تھے ‘ اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی تھے ‘ عاجزی اور انکساری ان کا وصف تھا ، وہ تمام سینئرز کا بہت احترام کرتے تھے ۔ ریڈیو پاکستان ملتان سے ان کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پٹھانے خان نے بچپن میں بہت دکھ دیکھے ۔ ان کے والد دوسری کے بعد تیسری دلہن گھر لے آئے تو ان کی والدہ نے بہت دکھ دیکھے ۔ اس حالت میں بچپن میں پٹھانے خان بہت بیمار ہوئے تو ان کی والدہ اپنے بیٹے کی بیماری اور دکھ نہ دیکھ سکتی تھی اور اشک بار آنکھوں کے ساتھ اپنے بیٹے کی زندگی کیلئے دعا مانگتی ۔اللہ پاک نے والدہ کی دعا کو اس قدر قبول کیا کہ پٹھانے خان کا نام قیامت تک زندہ رہے گا۔ پٹھانے خان کی گائیکی کے شاہ و گدا ، سب شیدا تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ان کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے ۔ 1976ء میں بھٹو نے ایوان وزیراعظم اسلام آباد میں پٹھانے خان کے اعزاز میں محفل سجائی ۔ پٹھانے خان نے عارفانہ کلام سنایا ، خواجہ فرید کی کافی ’’ میڈا عشق وی توں ‘‘ پر بھٹو پر وجد طاری ہوا اور وہ جھومنے لگے اور پھر بار بار ان کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے ’’ پھر کہو میڈا عشق وی توں ، میڈا یار وی توں ، میڈا دین وی توں ، ایمان وی توں ‘‘ ۔ اختتام پر ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ پٹھانے خان جو کچھ مانگتے ہو ، مانگو ۔ پٹھانے خان نے کہا کہ ’’ سئیں میں اپنے لئے کچھ نہیں مانگتا ، اتنا کہتا ہوں کہ میرے وطن کے غریبوں کا خیال کرنا ، میرے وسیب کا خیال کرنا ۔ ‘‘ یہ بہت بڑی بات تھی کہ پٹھانے خان نے اپنی ذات کیلئے کچھ بھی نہ مانگا حالانکہ وہ جو مانگتے ، انہیں مل جاتا ۔ پٹھانے خان اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کرنے والے فنکار تھے ۔ بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے ۔ خواجہ فرید ‘ چولستان اور تھل ان کی کمزوری تھے ۔ انہوں نے کئی مرتبہ اس کا اظہارکیا کہ مجھے فخر ہے کہ میں تھل کے علاقے کوٹ ادو میں پیدا ہوا اور خواجہ فرید کی روہی میری روح میں اس لئے بسی ہوئی ہے کہ روہی چولستان سے میرے مرشد خواجہ فرید نے محبت کی ہے ۔ پٹھانے خان کا خاندان مٹی کے برتن بنانے کا کام کرتا تھا ۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ مٹی میری ذات ہے ۔ ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ سئیں کیا آپ کے بزرگ کمہار ہیں تو پٹھانے خان نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ’’ نہ سئیں یہ تو وہ ذات ہے جس نے قرآن مجید میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو مٹی کی کھنکتی ٹھیکری کی طرح بنایا ۔ ‘‘ پٹھانے خان بہت خوش مزاج تھے ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ ’’ خواجہ فرید نے مجھے کہا ہے کہ تم قبر میں آؤ میں تم سے پوچھوں گا کہ کیا گانے کیلئے تجھے میں ہی ملا ہوں ‘‘ ۔ موسیقار کہتے ہیں کہ شعر و نغمے کی پسندیدگی کیلئے زبان کی چاشنی اور الفاظ کی ملائمیت دو لازمی عناصر ہیں اور سرائیکی اس پر پورا اُترتی ہے ۔ پٹھانے خان کی تو بات ہی اور ہے ۔ اس میدان میں عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی ، منصور ملنگی ، ثریا ملتانیکر ،اللہ ڈتہ لونے والا، حسین بخش خان ڈھاڈھی، بدرو ملتانی ، عابدہ پروین ، سلیم گردیزی ، نسیم اختر ، شہزادہ سخاوت حسین ، شازیہ خشک ، جلال چانڈیو، سجاد رسول ، کوثر ملک ، شہزادہ آصف گیلانی ، ساجد ملتانی ، اعجاز راہی ، عارف بابر ، نسیم سیمی ، عنبر آفتاب ، نواز میانی والا ، احمد نواز چھینہ، نواز بھٹہ ،عبدالسلام ساغر، سجاد ساقی ، روزینہ مشرف ، فاروق محرم ، شفیع وتہ خیلوی ، عبدالحمید نیازی ، جام ارشاد، عابد لودھی ، عبدالستار زخمی ، گل تری خیلوی ، نواز کارلو، اجمل ساجد ، رفیق ساحل ، موہن لعل بھیل ، فقیرا بھگت ، موہن بھگت، آڈو بھگت ، پروین نذر اور اس طرح کے سینکڑوں نہیں ہزاروں گلوکار وسیب میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے ہیں ۔ سب کا اپنا اپنا رنگ اور اپنا اپنا آہنگ ہے ۔ پٹھانے خان ان سب سے منفرد تھے ۔ عارفانہ کلام کی گائیکی بلاشبہ ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ خواجہ فرید، مادھو لعل سئیں، سچل سرمست اور بابا بلھے شاہ کا کلام جس جذب و کیفیت سے پٹھانے خان نے گایا ، وہ آج بھی لوگوں کے دلوں سے محو نہیں ہو سکا۔ پٹھانے خان کے فن کو زندہ رکھنے کیلئے ان کے فرزند اقبال پٹھانے خان نے انکی گائی ہوئی کافیاں گا کر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ کسی دور میں ریڈیو پاکستان کی جانب سے ادو میں پٹھانے خان کی برسی کا اہتمام کیا جاتا تھا مگر کچھ عرصہ سے یہ تقریب بھی منعقد نہیں کی جاتی ۔منفرد لب و لہجے کے ساتھ سریلی آواز سے اس خطے کو وہ پہچان بخشی جسے بھلایا نہ جا سکے گا۔کہتے ہیں کہ خوشبو اور آواز کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ، اسی طرح پٹھانے خان نے بھی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنی آواز کے ذریعے محبت کا پیغام پہنچایا ۔ وہ آج بھی زندہ ہیں ، اپنی آواز اور بہترین یادوں کے ساتھ ۔ جیسا کہ بابا بلھے شاہ سئیں نے فرمایا ’’ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ، گور پیا کوئی ہور ‘‘ ۔ پٹھانے خان آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ پٹھانے خان کی نذر قیس فریدی کے دو شعر : کلہیں بٖہہ تے سوچاں تیکوں اکھیں موٹ تے ڈٖیکھاں تیکوں خوشبو خوشبو تیڈیاں جھوکاں وانگ ہوا دے گولاں تیکوں