اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) نے پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کو ریاستی دہشت گردی قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔ او آئی سی نے بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کا چارٹر اور بین الاقوامی قانون پاکستان کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کا دفاع کرے۔ بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 2 کے تحت ذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کرے اور مزید کسی ایسے اقدام سے گریز کرے جو جنوبی ایشیا کی صورت حال اور خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہو۔ او آئی سی نے اپنے اعلامیہ میں بھارت کو مذاکرات کا کہا ہے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے گرفتار بھارتی پائلٹ کی رہائی کے فیصلے کوسراہا۔ او آئی سی اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو دعوت دینے پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ بائیکاٹ کے اس فیصلے کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر توثیق کی گئی تھی۔ وزیر خارجہ کی عدم شرکت کے باعث پاکستان نے دوسری سطح کے حکام پر مشتمل ایک وفد ابوظہبی بھیجا تاکہ پاکستان کی پیش کی گئی قرارداد کا دفاع کیا جا سکے۔ او آئی سی کی حالیہ کانفرنس اس لحاظ سے منفرد تاریخی حیثیت رکھتا ہے کہ پہلی بار بھارت کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی جبکہ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان نے او آئی سی کے وزارتی اجلاس میں اپنا وزیر خارجہ نہ بھیجا ہو۔ تاریخی طور پر پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات او آئی سی کی تنظیم کے اجلاسوں کے دوران سامنے آتے رہے ہیں۔ 1969ء میں مراکش کے دارالحکومت رباط میں او آئی سی کا سربراہی اجلاس تھا۔ اس وقت کے صدر پاکستان یحییٰ خان وفد کے ساتھ رباط میں موجود تھے۔ یحییٰ خان کو جب معلوم ہوا کہ اسلامی ممالک کی تنظیم میں بھارت کو رکنیت دینے کی تجویز زیر غور ہے اور بھارتی وفد سینئر سیاستدان فخرالدین علی احمد (بعدازاں 1974ء میں بھارت کے صدر منتخب ہوئے) کی قیادت میں اجلاس میں شریک ہورہا ہے تو صدر یحییٰ خان نے اجلاس میں شرکت کی بجائے ہوٹل میں رہنا مناسب سمجھا۔ اس وقت پاکستان نے اعتراض اٹھایا تھا کہ بھارتی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں ہندوئوں کے ہاتھوں مسلمان آبادی کا قتل عام کیا جارہا تھا جسے بھارتی حکومت روکنے میں ناکام رہی۔ صدر یحییٰ خان کے اس فیصلے کے بعد بھارتی وفد کو اجلاس میں شرکت سے روک دیا گیا اور او آئی سی کے فیصلوں تک اس کی رسائی محدود کردی گئی۔ اس وقت ایران، ترکی اور اردن نے پاکستانی موقف کی حمایت کی تھی۔ او آئی سی کی عالمی سیاست میں افادیت بھلے اقوام متحدہ جیسی نہ ہو یا اس کی دفاعی حیثیت نیٹو کے مساوی نہ ہو مگر یہ دنیا بھر کے مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے اس لیے اس کے فیصلوں کو عالمی امور میں ایک اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان او آئی سی کا بانی رکن ہے۔ 1974ء میں پاکستان او آئی سی سربراہ اجلاس کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل کر چکا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے اس کوشش میں رہا ہے کہ مختلف عالمی تنظیموں میں پاکستان کا اثر و رسوخ کم کرے۔ اقوام متحدہ میں بھارت گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرست ریاست بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتا آ رہا ہے۔ اسی طرح سارک میں جنوبی ایشیا کے ممالک پھر بھارت نے اپنی اقتصادی طاقت اور آبادی کا حجم مسلط کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان نے جب تمام اراکین کی مساوی حیثیت کی بات کی تو بھارت نے اس تنظیم کو ناکارہ بنانے کی منصوبہ بندی کرلی۔ آج یہ تنظیم اپنے مقاصد اور ایجنڈا سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔ بھارت کا موقف رہا ہے کہ اس کی مسلمان آبادی 20 کروڑ کے قریب ہے اس لیے اسے بھی او آئی سی کا رکن بنایا جائے۔ پاکستان کی دلیل وہی ہے جو 1974ء میں تھی۔ اس وقت بھی انتہا پسند بھارتیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے جان مال اور آبرو محفوظ نہ تھے۔ آج بھی ہندو بلوائی جسے چاہتے ہیں سرراہ پکڑ کر ذبح کردیتے ہیں۔ اس وقت احمد آباد میں مسلمانوں کی نسل کشی کا معاملہ تھا اب پورا گجرات، یوپی کا بڑا حصہ، راجستھان کے اہم شہر اور قصبے، چھتیس گڑھ وغیرہ انتہا پسندوں کے مرکز بن چکے ہیں۔ کشمیر کی حالت ان سب سے فزوں ہے۔ بھارت کی سات لاکھ فوج عملی طور پر قصاب بن چکی ہے۔ کشمیری مسلمان بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج جس وقت ابوظہبی میں او آئی سی اجلاس میں شرکت کے لیے موجود تھیں اس وقت بھی ایل او سی پر فائرنگ سے چار پاکستانی فوجی شہید ہوئے۔ اس روز بھی کشمیریوں کے گھروں سے جنازے اٹھ رہے تھے اور بھارت اپنے جنگی طیاروں سے او آئی سی کے اہم اور بانی رکن پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کے بعد جارحیت کا ارتکاب کر رہا تھا۔ ایسے موقع پر قومی غیرت اور حمیت کا تقاضا یہی تھا کہ پاکستان او آئی سی اجلاس میں وزیر خارجہ کو بھیجنے سے معذرت کرلے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ او آئی سی نے پاکستان کی طرف سے بھارتی شرکت پر پیش کئے گئے اعتراضات کو اہمیت دی ہے۔ بھارتی وفد کی شرکت کے باوجود او آئی سی نے پہلی بار مقبوضہ کشمیر کے باشندوں پر بھارتی مظالم کو ریاستی دہشت گردی کا نام دیا۔ پاکستان کا احتجاج بے کار نہیں گیا۔ بھارت کی مذمت اور اسے ریاستی دہشت گرد کہنے سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت سے جڑے معاشی مفادات کی نوعیت کچھ بھی ہو او آئی سی سمیت تمام بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کے موقف کو تسلیم کر رہی ہیں۔