سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ پہلے تجربے میں ضمنی الیکشن میں ’’آئی ووٹنگ‘‘ کے ذریعے ووٹ ڈالے جائیںگے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کی حب الوطنی کسی قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔ اوورسیز پاکستانی کثیر زرمبادلہ بھیج کر پاکستان کی معیشت کو سہارا دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں جب بھی کوئی آسمانی یا زمینی آفت آئی تو بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں نے دل کھول کر اپنے بھائیوں کی مدد کی لیکن ہماری حکومتوں نے انہیں ووٹ کے حق سے محروم رکھ کر ان کے دلوں میں احساس کمتری کو جنم دیا، اسی بنا پر کچھ اوورسیز پاکستانی بیرون ممالک ہی جائیدادیں خریدنے اور کاروبار کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ان کا اعتراض بجا تھا کہ حکومت پاکستان جب ان کے زرمبادلہ سے فائدہ اٹھا کر ملکی معیشت کو مضبوط کرتی ہے تو پھر انہیں پسند کے امیدوار کو ووٹ دینے کا بھی حق ملنا چاہیے۔ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح بیرون ملک مقیم محنت کشوںکے لیے انتخابات کے موقع پروطن واپس آ کر انتخابی عمل میں حصہ لینا ممکن نہ تھا ،اسی لیے انہوں نے ہر جمہوری حکومت سے ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت چاہی، کسی جگہ نادرا آڑے آیا تو کسی جگہ بیوروکریسی نے راستے میں روڑے اٹکائے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان شروع ہی سے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت دینے کے حق میں تھے، اس سلسلے میں انہوں نے ہر فورم پر اوورسیز پاکستانیوں کے حق میں آواز بلند کی۔ عمران خان کا موقف صداقت پر مبنی تھا کہ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی اپنے وطن کے لیے محنت کر کے پیسہ کماتے ہیں، اسی حقیقت کو پیش نظر رکھ کر ہماری حکومتوں کو ملکی معاملات میں ان پاکستانیوں کی دلچسپی کو زیادہ سے زیادہ مثبت بنا نا چاہیے لیکن کسی حکومت نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔ درحقیقت ہم بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں کو وہ عزت و احترام دینے میں ناکام رہے جو ملکی معاملات میں انہیں شریک کر کے انکے سرمائے اور تجربے کو ملکی ترقی و خوشحالی کا حصہ بنانے کے لیے ضروری تھا۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے محض بیانات پر اکتفا کیا۔ وہ اس سلسلے میں قانون سازی کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے ٹالتے رہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اپنے ووٹ کا حقیقی حقدار سمجھتی ہے۔ اسی بنا پر وہ انہیں حق رائے دہی دینے کے حق میں نہ تھے۔ الیکشن کمیشن عام انتخابات کے موقع پر تمام پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی ترغیب دیتے ہوئے اشتہاری مہم شروع کرتا ہے کہ ہر پاکستانی کا ووٹ قیمتی ہے۔ ہم تمام ووٹرز کو حق رائے دہی کے استعمال کے لیے ممکنہ سہولیات فراہم کریں گے جبکہ دوسری جانب اوورسیز پاکستانیوں سے وہ انتظام نہ ہونے کی بنا پر معذرت خواہانہ لہجہ اپناتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس رویے پر تارکین وطن غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے سوال کرتے تھے کہ ان کی حب الوطنی پر شک کیا جارہا ہے، اسی بنا پر اکثر غیر ممالک میں مقیم پاکستانی سیاست دانوں کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ ان کا احتجاج حق بجانب ہے کیونکہ پاکستان میں ان کی جائیدادیں محفوظ ہیں نہ ہی ان کے کاروبار کی کوئی حفاظت ہے۔ ان کے پلاٹوں، مکانوں، دکانوں اور بنگلوں پر قبضہ مافیا نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں جنہیں ہر دور میں حکومت اور سرکاری افسران کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کا نعرہ بلند کیا اور برطانیہ سے چوہدری سرور کو لا کر گورنر پنجاب بنایا۔ وعدے کے مطابق جیسے ہی چوہدری سرور اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کے لیے سرگرم ہوئے تو مسلم لیگ ن کے ذمہ داران اور خود شریف فیملی کے افراد نے ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں۔ بالآخر مایوس ہو کر چوہدری سرور نے پنجاب کی گورنرشپ سے ہی استعفیٰ دے دیا۔ تحریک انصاف نے انہیں دوبارہ گورنر پنجاب نامزد کیا ہے، اس دور حکومت میں ان کے سامنے رکاوٹیں نہیں ہوں گی۔ اس لیے امید ہے کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق ان کے مفادات، مشکلات کے ازالے اور ان کی املاک کی حفاظت کو یقینی بنا کر ان کے تمام شکوئوں کو ختم کریں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو بے پناہ مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ شناختی کارڈ کے لیے نادرا نے آن لائن اپلائی کی سہولت مہیا کر رکھی ہے۔ پڑھے لکھے لوگ تو بآسانی شناختی کارڈ کے لیے آن لائن درخواست دے سکتے ہیں جبکہ ان پڑھ لوگ مشکلات میں پھنس جاتے ہیں اس سلسلے میں نادرا حکام کو ان تمام ممالک میں جہاں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے ،اپنے دفاتر قائم کرنے چاہئیں تاکہ تارکین وطن کو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شناختی کارڈ کے بعد پاسپورٹ بنوانے میں بھی پہاڑ جیسی مشکلات کھڑی ہوتی ہیں۔ وہ تارکین وطن جن کے پاسپورٹ گم ہو جاتے ہیں اصولی طور پر ان کا ڈیٹا کمپیوٹر میں محفوظ ہوتا ہے جس سے ان کے پاکستانی شہری ہونے کی تصدیق ہو جاتی ہے لیکن سفارتخانے پاسپورٹ بنوانے والے کے ڈیٹا کو پہلے پاکستان بھیجتے ہیں۔ یوں ایک طویل ترین مرحلے کے بعد جا کر پاسپورٹ بنتا ہے جبکہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا طریقہ کار نہیں ہے ،اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ اوورسیز پاکستانی محنت مشقت کر کے ترسیلات زر کے ذریعے ملکی معیشت کو سہارا دیتے ہیں لیکن پاک سرزمین پر قدم رکھنے سے لے کر واپس جانے تک وہ لوٹ مار اور عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں کو وی آئی پی کا درجہ دے رکھا ہے، انہیں مالی اور جانی تحفظ فراہم کرکے ان کے تجربے، سرمائے اور صلاحیتوں کو قومی مفاد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ضمنی الیکشن میں اوورسیز پاکستانیوں کوووٹ ڈالنے کی اجازت دی ہے۔ نادرا اور الیکشن کمیشن نے مل کرپائلٹ پراجیکٹ بنایا ہے جس میں الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوگی۔ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے یہ بہت ہی بڑا پرمسرت دن ہے کہ ان کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوا۔ماضی میں ان کے ساتھ ہونے والا زیادتیوں کا ازالہ ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ تمام انتخابات میں چاہے وہ ضمنی ہوں بلدیاتی یا عام انتخابات ،ان میں اوورسیز پاکستانیوں کی شرکت یقینی بنانے کے احکامات جاری کرے۔ اس سلسلے میں پہلی ترجیح اور پہلی فرصت میں نئی اسمبلیوں کو قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے ۔