روزانہ انتظار کرتے ہیں کہ عوام کے لیے آج اچھا دن آتا ہے۔ کوئی راہبر آئے گا اور وہ بگڑے ہوئے حالات کو سدھارے گا۔ الیکشن میں ان کا گمان یقین میں بدل جاتا ہے کہ تبدیلی آئے گی اور قسمت کا ستارہ چمکے گا۔ الیکشن ہو جاتے ہیں۔ ستارہ تو کیا چمکے، کوئی نحوست کی گھڑیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ چوروں کو نئے شکار کی تلاش میں ایسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ اگر ادھر کا جہاں ادھر ہو جائے تو یہ چور، ڈاکو سارے نظام کوتلپٹ کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ایک پرانے دور کی بات ہے کہ جب حکومت کا شوقین جیب تراشی کے ہر جدید فن سے آشنا تھا۔ پہلے اپنی ملکہ کے سہارے ان دیکھا بادشاہ تھا۔ بڑے ہوٹلوں سے لے کر ٹھیلے والوں تک سے خراج بے جا وصول کرنا اس کا شوق تھا۔ اسلام آباد سے دوبئی تک عمارتوں پر ملکیت کا ذوق فراواں اس کا ذہنی سرمایہ تھا۔ پنجاب سے ایک بگڑے دل دھنوارنے عارضی کرایہ سسٹم قائم کیا۔ زبان دراز، کئی ملا اور کئی صدا کارخریدے، ہر طرز کے مولویوں کے مدرسوں کو حصہ بقدر حیثیت دیا۔ وہ اپنی کھال کے لیے ہر ایسی ڈھال ساتھ رکھتے تھے کہ دیکھنے والے اسے رستم دوراں سمجھتے تھے۔ یہ خود ساختہ اور بے ساختہ رستم زماں کبھی مینار پاکستان کے سائے میں بیٹھتے تو خود کو قومی ہیرو اور چارہ بے چارگاں بنا کر پیش کرتے تھے اوراپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ چور ہیں، ڈاکو ہیں اور قوم کا سرمایہ لوٹ رہے ہیں۔ بجلی کی بندش سے یہ قوم کو اندھیروں میں دھکیل رہے ہیں ان کا پیٹ پھاڑ دوں گا، میں ان کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا۔ وقت بدلا، تخت نشین نئے آ گئے۔ پنجاب کے بگڑے دل دھنوار کو کرسی ملی تو سب باتیں جان بوجھ کر طاق نسان کردیں۔ اپنی ذاتی تجوری کی حفاظت کے لیے یہودی طرز کی چالیں چلیں، اچانک اسلام آباد کا گھیرائو ہوا تو اس دھنوار کے کنبے کو خلاصی کاراستہ معدوم نظر آیا تو اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف کو مدد کے لیے پکارا۔ پھر وزیراعظم اس کے ڈرائیور بنے اسے اپنے گھر لے آئے۔ پہلے وہ سکیورٹی رسک تھا۔ بھتہ خور تھا، جھوٹا تھا۔ اب اسے گھر میں لاکر طبیب علت بنا کر اپنی نبض تھما دی تھی۔ آصف زرداری اب ان کا بھائی تھا۔ کبھی ضرورت پڑے تو یہ لوگ نریندر مودی جو دشمن اسلام ہے، قاتل مسلمانان ہے۔ پاکستان کا دشمن ہے۔ اس کو خالص گھریلو تقریب میں بلا کر بھائی چارے کا اعلان کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کو نازیبا کلمات سے یاد کرتا تھا ،ان کی آنکھیں بند اورزبان مقفل رہتی تھی۔ پھر ایک سدا کا بغض دار بلوچستان کا طمع بھرا سیاستدان تھا۔ جب چاہتا پاکستان کو کوستا تھا۔ پنجاب کا دھنوار اس کو بھی اپنے ترازو کے باٹ میں جمع رکھتا تھا۔ ایک طویل قصہ ہے۔ اس قصے میں کئی صالحین خود پرست بھی ہیں اور کئی دہشت گردوں کے نیم معصوم سرپرست بھی ہیں۔ اس قصہ دغا بازی میں کئی ایسے وراثتی علاقائی سیاستدان بھی ہیں جن کے آباء کو پاکستان میں دفن ہونے سے بھی نفرت تھی۔ اب الیکشن ہو گئے اور حالات سے تنگ عوام نے کچھ آنکھیں کھولیں اور نئی پارٹی کی جانب واضح جھکائو سامنے آیا۔ وہ ابھی اچھی تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔ ادھر حکومت سازی کے لیے روایتی حالات پیدا ہوئے۔ دوسری جانب کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا کا منظر دیکھنے میں آیا۔ ایک صاحب نے دل کے پھپھولے پھوڑے تو کہا کہ ہم کسی کو اسمبلی میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ کسی نے کان میں پھونکا کہ آپ تو جمہوریت کی بقاء کے لیے بہت نعرے لگاتے تھے۔ پھر کسی نے مٹھی گرم کردی تو بیان کی مدت میں کمی آ گئی۔ فرمایا کہ کوئی منتخب رکن حلف نہ اٹھائے، پھر کسی نے اپنے غمزہ قدیم سے رام کیا تو اب تیار ہیں کہ اسمبلی میں جا کرنئے تیور دکھائیں گے۔ ایک محترم خاتون بیٹھے بٹھائے آپڑوسن لڑیں، کے جملے کو مشق سیاست کا جزو لاینفک سمجھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ اہل محراب سیکولر سیاست اور بے حیا معاشرتی اقدار کو جڑوں سے اکھاڑنے کا منشور لے کر آئے تھے۔ اب اور اب، بس حیا اور سیکولر اقدار کے متوالوں کے ساتھ نشست آرا ہیں۔ عوام کے کمزور حافظے پر اپنی خود پسند سیاست کے تیشے چلا رہے ہیں۔ کونسا اسلام؟ کس کا اسلام؟ سب بھول گئے۔ بس ایک نیا وظیفہ کلام ہے اور نئے وطیرے کا سہارا ہے کہ انتخابات غلط ہوئے۔ دھاندلی ہوئی، حکومت کٹھ پتلی ہے لیکن یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ کس کی کٹھ پتلی ہے یہ حکومت، کون یہ کھیل کھیل رہا ہے؟ فوج اور عدالت پر دانت پیستے رہتے ہیں۔ طریقے طریقے سے ان پر اوچھے حملے کرتے ہیں، کرواتے ہیں جو کام ان کے کرنے کے تھے، وہ فوج اور عدالت کو کرنا پڑے۔ پاکستان کے دشمن نے پوری قوم کو پانی کے قطرے قطرے کا محتاج کردیا۔ یہ بے چارے کل کے حکمران اس قباحت کاانسداد نہ کرسکے، اب عدالت کوپانی کے لیے، بجلی کے لیے ڈیمز بنانے کا عملی اقدام کرنا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے سیلاب بلا میں آنے والی شہری آبادیوں کا یہ تحفظ نہ کر سکے تھے۔ سارے ملک کی پولیس اپنے گھروں کی چوکیداری پر لگا رکھی تھی۔ پولیس، سول انتظامیہ کی صلاحیت کمزور ہوئی توفوج نے داخلی امن کے لیے ضرب عضب اور ردالفساد کا سلسلہ شروع کیا تو ان کے بے جا اور ان جانے تحفظ بڑھتے گئے۔ بھان متی کے نئے جوڑ کا ہر عنصر اپنی لن ترانی میں نہ فوج کو معاف کرتا ہے اور نہ ہی عدالت کو گھورنے سے باز آتا ہے۔ ادھر امریکہ بہادر اپنی بدنیتی کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے۔ وہ بھارت کو ایشیا کا کوتوالی بنانے کی ہر کوشش کر رہا ہے اور وہ بھارت کے ہر ظلم کو اس کی ریاستی سیاست کا نام دے کر اسے مزید ظلم پر ابھار رہا ہے۔ پاکستان کا مقدر بہرحال اقوام عالم کی امامت ہے۔ بدقماش بین الاقوامی تھانیدار اور داخلی منافقین وطن بالآخر کھٹے دانتوں میں زبان دبائے پسپائی کے گڑھے میں ذلت کے سانس لیں گے۔ پاکستان اور قوم مسلم اس ابتلا سے گزر کر بالآخر سرخرو ہوں گے۔ البتہ حکومت اور مخالفین حکومت اپنے دامن کو رسوائیوں سے بچانے کا اہتمام کریں۔ یہ وقت بہت نازک ہے اور جو گروہ بھی منزل بلند سے آنکھیں چرائے گا۔ اسے فطرت کے گراں احتساب کا سامنا کرنا ہوگا۔ پاکستان اور اسلام کے کھلے اور خاموش مخالفین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا۔ بہت ضروری ہے، اگر آنے والی حکومت نے بے دین، سیکولر عناصر کی سرپرستی کی یا پاکستان دشمن افراد کو سہارا دینے کی کوشش کی تو یاد رکھئے کہ اقتدار کی مدت کی بساط قلیل تر ہوتی چلی جائے گی۔ شنید ہے کہ آنے والی حکومت میں آزاد خیال بلکہ لاپروا خیالات کے حامل مرد و خواتین کو اہم حکومتی ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اصلاحات اور خیر پروری کے تمام منصوبے قدم اول پر ہی جان ہار جائیں گے۔ یہ ملک اور قوم اپنی اصل میں اور اپنے امتیاز میں غلامی رسول ﷺ کا قلادہ ایمانی ڈالے ہوئے ہے۔ اس ملک کی بقاء اور قوم کی آبرو مقام مصطفی ﷺ کے تحفظ اور نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ میں پنہاں ہے۔ جو افراد ادارے اور حکومتیں مقام مصطفی ﷺ کے تحفظ کا فریضہ ادا نہیں کرتے وہ خود بے مقام اور بے نام ہو جایا کرتے ہیں۔ ایسے افراد کو قوم حکومت میں برداشت نہیں کرتی جو محبان رسول ﷺ کو دہشت گرد بتاتے ہیں۔ حزب اختلاف اور حزب اقتدار اپنی ماضی کی کوتاہیوں سے تائب ہو جائیں اور ایک اسلامی پاکستان کی تعمیر میں نیک نیتی اور خوشدلی سے حصہ لیں ورنہ گمنامی کاسونامی انہیں تہہ خاک بے چین روح کے ساتھ سلادے گا۔