صدر مملکت عارف علوی نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کر کے پاکستان میڈیکل کمشن کے نام سے نیا ادارہ قائم کرنے کا آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔ پی ایم سی کو 9اراکین کی کمیٹی چلائے گی جس کا سربراہ صدرکہلائے گا۔ پاکستان میڈیکل کمشن شعبہ طب کے متعلق پالیسی اور ضابطوں کا نگران ہو گا۔ میڈیکل تعلیم کے لئے کم ازکم معیار کا تعین۔ تربیت، طب و دانتوں کے علاج کے لئے ادویات اور تعلیمی قابلیت کا تعین پی ایم سی کی ذمہ داری ہو گی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق پی ایم سی جن شعبوں پر بااختیار ہو گا ان میں 1۔ ڈینٹل اینڈ میڈیکل کونسل 2۔ نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈاور 3نیشنل میڈیکل اتھارٹی شامل ہے۔ یہ اتھارٹی پی ایم سی کے سیکرٹریٹ کے طور پر کام کرے گی۔ پاکستان میں ہر خرابی کی بنیاد بدقسمتی سے سیاسی حکومتوں کے زمانے میں رکھی گئی۔ میڈیکل کی تعلیم‘ میڈیکل و ڈینٹل کالجز کی منظوری کا طریقہ کار اور ضابطہ جات کے معاملات پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی ذمہ داری رہے ہیں۔ 2008ء کے بعد وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو آصف علی زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم کو پی ایم ڈی سی کے معاملات کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر عاصم کئی پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور ہسپتالوں کے مالک ہیں۔ وہ نظام کی خرابیوں اور کمزوریوں سے آگاہ تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ لیبارٹری، ضروری سہولیات اور مخصوص قابلیت کے حامل اساتذہ کے بغیر میڈیکل کالج کی منظوری نہیں دی جاتی۔ داخلوں کے معاملات میں بدعنوانی کہاں کہاں اپنا کام دکھاتی ہے ڈاکٹر عاصم اس امر سے بھی آگاہ تھے۔ نجی اداروں کے سربراہ کے طور پر انہیں مسائل کا ادراک تھا مگر ان کی سربراہی میں یہ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے گئے۔ ان کے بعد مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ادارے کی کارکردگی میں شفافیت کی امید لگائی گئی مگر یہ امید بھی پوری نہ ہو سکی۔ 2016-17ء میں لاہور ہائیکورٹ پی ایم ڈی سی تحلیل کر دی۔جنوری 2018ء میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے متعدد پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے دورے کئے اور وہاں تعلیمی وتربیتی سہولیات کا جائزہ لیا۔ طلباء سے لاکھوں روپے فیس کی مد میں وصول کرنے اور غیر معیاری انفراسٹرکچر پر انہوں نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو معطل کر کے ایک عبوری کمیٹی قائم کر دی جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس شاکر اللہ جان تھے۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ میڈیکل کالجز کے معائنے کا کام الگ سے قائم ایک کمیٹی کرے گی۔ اس کمیٹی میں چیف جسٹس کی نمائندگی سیکرٹری کرتے۔ اٹارنی جنرل کے علاوہ کمیٹی میں میڈیکل کالجز اور صوبائی حکومتوں کے نمائندے شامل کئے گئے۔ اس وقت سے یہ ادارہ ایک طرح سے غیر فعال چلا آ رہا تھا۔ میڈیکل کے طلبائ‘ تعلیمی ادارے اور ضابطوں کے معاملات سیاسی بنیادوں پر تعینات افراد کے ہاتھوں میں غیر محفوظ دکھائی دینے لگے۔ پی ایم ڈی سی میں کرپشن اور بدعنوانی کے معاملات کو محض الزام اس لئے بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ماضی میں اس ادارے کے چیئرمین میجر جنرل(ر) اظہر کیانی کونسل میں اربوں روپے کی کرپشن کا اعتراف کرچکے ہیں۔ ان کے مطابق بیرون ملک میڈیکل گریجوایشن کے امتحانات میں ہر سال ایک ارب 80کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی اور معالہ نیب تک پہنچا تو انکشاف ہوا کہ میڈیکل کالجز کھولنے اور نجی تعلیمی اداروں کی فیسیں بڑھانے کے لئے اربوں روپے وصول کئے جاتے تھے۔ پی ایم ڈی سی کے معاملات میں عدم شفافیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پی ایم ڈی سی نے میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن کے لئے تین سال میں 300بستروں پر مشتمل ہسپتال بنانے کی شرط رکھی تھی مگر سپریم کورٹ میں جب معاملہ آیا تو پتہ چلا کہ اکثر نجی میڈیکل کالجز میں اول تو ہسپتال ہی نہیں اور جہاں ہسپتال موجود بھی ہیں وہاں آلات جراحی اور ماہرین کی مطلوبہ تعداد نہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے پی ایم ڈی سی کے بااختیار عہدیداروں کی نجی میڈیکل کالجز میں شراکت داری کی بھی اطلاعات آتی رہی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ایم ڈی سی اپنے متعین کردہ امور کی بے لوث اور دیانتدارانہ انجام دہی میں بری طرح ناکام رہا ہے اور اس وجہ سے سپریم کورٹ کو بھی مداخلت کرنا پڑی تھی۔ جہاں تک ناقدین بالخصوص اپوزیشن کے پی ایم ڈی سی کو آرڈی ننس کے ذریعے تحلیل کرنے پر اعتراضات کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمان کی موجودگی میں قانون سازی آرڈی ننس کے بجائے اسمبلی میں قانون سازی سے ہونا چاہیے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کوئی بل کتنے ہی خلوص سے اسمبلی میں کیوں نہ لائے اپوزیشن ہمیشہ معاملات کو سیاسی رنگ دے کر اہداف کے حصول میںمشکلات پیدا کرتی رہی ہے۔ حکومت کی اس مجبوری کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ صدارتی فرمان جاری ہونے کے بعد پی ایم ڈی سی کی جگہ پی ایم سی کا ادارہ بن گیاہے۔ پی ایم ڈی سی کے 211ملازمین اور ریکارڈ کے متعلق حکومت کوئی فیصلہ جلد کر سکتی ہے تاہم جوکام پہلی فرصت میں کرنے کا ہے وہ اس نئے ادارے میں تعیناتیوں کو شاف رکھنا اور ہر تعیناتی میں میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کو یہ ثابت کرنے کا چیلنج بھی درپیش ہو گا کہ وہ اپنی کارکردگی اوردائرہ کار کے لحاظ سے پی ایم ڈی سی کی نسبت زیادہ موثر، فعال اور شفافیت کا حامل ادارہ ہے۔ اگر سب کچھ پہلے جیسا رہا، ضابطوں اور میرٹ کواسی طرح نظرانداز کیا جاتا رہا تو یہ عمل صرف نامی کی تبدیلی کہلائے گا۔