میں شاید کبھی بھی اس شخص کے بارے میں اپنے قلم کی سیاہی ضائع نہ کرتا اگر پاکستان کے ایک مؤقر انگریزی اخبار نے اس کی موت پر اسے انسانی حقوق کا محافظ (Defender) نہ لکھا ہوتا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اس شخص کی اصلیت واضح نہ کی گئی تو عین ممکن ہے اس اخبار کے ٹیلی ویژن چینل پر بیٹھی سیکولر، لبرل لابی کہیں اسے نیلسن منڈیلا، مہاتما گاندھی یا پھر کم از کم عاصمہ جہانگیر کا ہم پلہ نہ ٹھہرا دے۔ یہ لابی مسلمان شخصیات کے مقابلے میں افراد ڈھونڈتی ہے، پھر اپنے پروپیگنڈے کے زور پر ان کے تن مُردہ میں ہوا بھرتی ہے اور انہیں مسلمانوں کی عظیم شخصیات کے مقابلے میں بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ اس کی بدترین مثال یہ تھی کہ عبدالستار ایدھی جیسے غیر متنازعہ اور انسانوں کی فلاح کے لئے زندگی وقف کرنے والے شخص کو اس حد تک متنازعہ بنایا گیا کہ اس کے نام کے ساتھ ’’محسنِ انسانیت‘‘ کا لقب لکھا گیا، جو اُردو ادب میں صدیوں سے سیدالانبیائ، رسولِ رحمت حضرت محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نامِ نامی سے مخصوص رہا ہے۔ یہ لقب اس قدر خاص تھا کہ کسی بھی مسلک نے اپنی کسی اہم ترین شخصیت کے لئے بھی احتراماً یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ سیکولر ، لبرل لابی کا یہ اقدام صرف ایک حوصلہ ہی نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے چھپا ہوا مقصود اس لقب کی بے حرمتی تھی۔ طارق فتح مر گیا اور اس مالک ِ کائنات کے حضور جا پہنچا ہے جہاں حق اس کی آنکھوں کے سامنے بالکل واضح ہو چکا ہو گا لیکن اس کی پوری زندگی پہلے اسلام دشمنی اور پھر اسی حوالے سے پاکستان دشمنی میں ایسی گزری کہ وہ بھارتی میڈیا کی آنکھوں کا تارا بن گیا تھا۔ وہ جس دَور میں کراچی یونیورسٹی کا طالب علم تھا، یہ زمانہ اسلامی جمعیت طلبہ کے عروج کا دَور تھا۔ پورے ملک میں شاید ہی کوئی سٹوڈنٹس یونین ایسی ہو جس کا انتخاب اسلامی جمعیت نے نہ جیتا ہو۔ کراچی یونیورسٹی میں 1969-70ء کے الیکشن میں اسلامی جمعیت طلبہ کے صدارتی اُمیدوار اعجاز شفیع گیلانی تھے جبکہ ان کے مقابلے میں لیفٹ یعنی کیمونسٹ خیالات کی ترجمان این ایس ایف کے اُمیدوارعبدالباری خان تھے۔ دونوں کے ووٹوں میں بہت بڑا فرق تھا۔ اعجاز شفیع گیلانی کو 889 ووٹ اور عبدالباری خان کو صرف 370 ووٹ ملے تھے۔ اس الیکشن کے خلاف این ایس ایف نے وائس چانسلر اشتیاق حسین قریشی پر دھاندلی کا الزام لگایا اور بھوک ہڑتال کر دی جس کا سرغنہ طارق فتح تھا۔ ایک دن پولیس آئی اور پورا ہڑتالی کیمپ اٹھا کر لے گئی۔ یہ سیاسی کشمکش کا زمانہ تھا مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا اور اس کے بعد بچے کھچے پاکستان پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو اس نے پورے ملک کی یونیورسٹیوں میں جمعیت مخالف نوجوانوں کو نوکریاں دے کر نوازنا شروع کیا۔ اپنے خصوصی نظریات کے لئے اس نے پاکستان ٹیلی ویژن میں ایسے لوگوں کو بھرتی کرنا شروع کیا جن کے خیالات ترقی پسندانہ اور مذہب بیزاری والے تھے۔ اس کام کے لئے بھٹو نے پاکستان ٹیلی ویژن کا سربراہ اسلم اظہر کو لگایا اور اس کی نگاہِ انتخاب اسلام دشمن طارق فتح پر پڑی۔ یوں طارق فتح کو بے شمار لوگوں کی موجودگی میں پی ٹی وی نیوز میں ایک اعلیٰ عہدے پر براہِ راست فائز کر دیا گیا۔ اسلم اظہر کو بے نظیر نے اقتدار میں آتے ہی دوبارہ پی ٹی وی کا سربراہ لگایا لیکن اب بھٹو کی بیٹی امریکہ کی فریفتہ تھی اور اسلم اظہر نظریاتی آدمی تھا، یوں یہ بندوبست زیادہ دیر چل نہ سکا۔ جس طرح تمام کیمونسٹوں کا قبلہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ ہو گیا تھا اور اب وہ سب کے سب اسی امریکی دہلیز پر سجدہ ریز ہو گئے تھے جسے کل تک گالیاں دیا کرتے تھے۔ طارق فتح نے بھی دیگر ساتھیوں کی طرح ویسا ہی کیا اور ساتھ ہی کینیڈا میں جا کر مستقل سکونت اختیار کر لی۔ وہاں جا کر وہ اپنی شناخت کے بارے میں یوں کہا کرتا ، ’’پاکستان میں پیدا ہونے والا ایک ہندوستانی‘‘ اور ’’اسلام میں پیدا ہونے والا ایک پنجابی‘‘۔ کینیڈا کی آزاد فضاء میں اس نے پاکستان کی تخلیق، وجۂ تخلیق اور پھر پاکستان کے وجود کی مخالفت کا بھر پور آغاز کیا۔ اس نے ’’اسلامی ریاست کے سراب‘‘ (Illusion of Islamic State) کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ جو حقائق کی بجائے صرف نعرے بازی اور پروپیگنڈے پر مشتمل ہے۔ حیاتیاتی کیمیا کی ڈگری رکھنے والے طارق فتح کو میڈیا کا راستہ دکھا دیا تھا، سو اب یہ اس کی عادت بن چکی تھی۔ اس نے خود کو مغربی میڈیا میں جا دھکیلا اور کینیڈا کے میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے لگا۔ وہ کینیڈا کے ویژن (Vision) ٹی وی پر ایک شو ’’مسلم کرونیکل‘‘ کی میزبانی کرتا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کرتا۔ کینیڈا کے آزاد ماحول کی وجہ سے وہ مسلمانوں کی مقدس شخصیات پر بھی کیچڑ اُچھالتا۔ جس پر اسے کوئی وہاں نہ پوچھتا۔ کینیڈا کی مسلمان کمیونٹی بہت نالاں تھی، اس لئے فروری 2011ء میں نارتھ امریکن مسلم فائونڈیشن کے شہریار شیخ نے اسے مباحثے کا چیلنج دیا جسے طارق فتح نے قبول کر لیا لیکن وہ عین وقت پر بھاگ گیا۔ اس بھگوڑے پن کی روئیداد کو کینیڈا کی مشہور صحافی جیسکا ہیوم (Jessica Hume) نے تفصیل سے لکھا ہے۔ طارق فتح بھارت یاترا اکثر کیا کرتا۔ وہ مسلمان دشمن تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS)کا لاڈلا تھا اور اسے پاکستان دشمنی کی وجہ سے بھارتی میڈیا پر خصوصی جگہ دی جاتی، یہاں تک کہ اسے ایک پروگرام کرنے کی خصوصی اجازت دی گئی جس کا نام ’’فتح کا فتویٰ‘‘ تھا۔ اس پروگرام میں وہ مختلف مسالک کے علماء کو بلاتا اور پوری کوشش سے ان کی تضحیک کرتا۔ بھارتی مسلمان بیک زبان ہو کر اس پروگرام کے خلاف ہو گئے اور اس قدر دبائو ڈالا گیا کہ ٹیلی ویژن چینل کو طارق فتح کا یہ پروگرام بند کرنا پڑا۔ یہ شخص اسلام کو ’’کینسر‘‘ کہا کرتا تھا لیکن کمال دیکھئے کہ اس کی اپنی موت بھی ’’کینسر‘‘ کے مرض سے ہوئی۔ بسترِ مرگ پر اس سے ملنے پاکستان کی سب سے متنازعہ اور توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت پر مبنی ویب سائٹ ’’بھینسا‘‘ سے منسلک سلمان حیدر بھی اس کے پاس ہسپتال جا پہنچا۔ سلمان حیدر نے اس کے ساتھ ایک تصویر بنائی اور پھر اس تصویر کو اس کیپشن کے ساتھ ’’ٹوئٹ‘‘ کیا،کہ ’’وہ کس بہادری سے موت کا مقابلہ کر رہا ہے‘‘۔ مجھے اس کیپشن پر ابوجہل کی وہ وصیت یاد آ گئی جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’جو کوئی مجھے میدانِ جنگ میں قتل کرے تو میرا سر ذرا گردن سے نیچے سے کاٹے تاکہ مقتول سروں میں دُور سے معلوم ہو کہ یہ بڑا سر کسی سردار کا ہے‘‘۔ طارق فتح کی پوری زندگی میں تعصب اور نفرت کا زہر گھلا ہوا تھا لیکن مؤقر انگریزی جریدے نے پتہ نہیں کیسے اسے انسانی حقوق کا محافظ لکھ دیا۔