ہم بحیثیت قوم سیاست کی لفظی جنگوں‘ مناظرہ بازیوں میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ معاشرہ کے ٹھوس مسائل کے بارے میں سوچنے‘ بات کرنے کیلیے وقت نہیں نکال پاتے۔ جو اجتماعی معاملات ہماری بقا اور خوشحالی سے متعلق ہیں ہم اُن پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ایسے مسائل میں سے ایک ہے۔ پاکستان بننے سے ابتک ہماری آبادی میں سترہ کروڑ افراد کا اضافہ ہوچکا۔72 برس پہلے اس خطہ میں تقریبا پونے چار کروڑ انسان آباد تھے۔ اب پونے اکیس کروڑ ہیں۔ نتیجہ یہ کہ دستیاب پانی میں ہر شخص کا حصہ پانچ گنا کم ہوگیا ہے‘ غریبوں کی تعداد بڑھ گئی ہے‘ معاشی خوشحالی ایک خواب بن گئی ہے۔ دنیا کی آبادی سالانہ 1.2 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے‘ ہماری 2.4 فیصد سالانہ۔ یہی اسپیڈ رہی تو اگلے تیس سال میں ہم بیالیس کروڑ ہوجائیں گے۔ یہ ایک سنگین صورتحال ہے۔ محدود وسائل میں اتنے زیادہ انسانوں کیلیے غذا‘ پانی‘ رہائش کا انتظام کیسے ممکن ہوگا؟ ہم تو موجودہ آبادی کی ضروریات ہی پوری نہیں کر پا رہے۔ یہی حال رہا تو ہم ایسا ملک بننے جا رہے ہیں جہاں کروڑوں غریب‘ مفلوک الحال‘ ان پڑھ لوگ غول در غول بے روزگار گھوم رہے ہونگے‘ جگہ جگہ پانی اور کھانے کیلیے دنگے فساد ہورہے ہونگے۔ انیس سو اسیّ کی دہائی میں پاکستان جنوبی ایشیا کا سب سے خوشحال ملک تھا۔ ہماری فی کس آمدن خطہ کے دیگر ملکوں جیسے بھارت‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا سے زیادہ تھی۔آج ہم ان سب ملکوں سے پیچھے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسوقت سوا پانچ کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے رہ رہے ہیں۔ یہ لوگ دو وقت کے پورے کھانے سے بھی محروم ہیں۔ جو لوگ بمشکل غربت کی لکیر پر ہیں ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ تقریبا تیرہ کروڑ۔ غریب عورتیں اور بچے کم غذا کی وجہ سے بیماریوں اور نامکمل نشوونما جیسے مسائل میں مبتلا ہیں۔ تقریبا اڑتیس فیصد بچے نامکمل نشوونما کا شکار ہیں۔ پاکستان میں دنیا کے دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ عورتیں زچگی کے دوران مرجاتی ہیں۔ ہر سال لاکھوں حاملہ عورتیں۔ ان کو مناسب خوراک نہیں ملتی‘ زچگی کیلیے تربیت یافتہ دائی یا ڈاکٹر دستیاب نہیں۔پیدا ہوتے ہی مرجانے والے بچوں کی تعداد بھی ہمارے ہاں دوسرے ملکوں سے زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں کی جانے والی ریسرچ بتاتی ہے کہ اگر آبادی پر قابو پالیا جائے اور خاندان کا سائز چھوٹا ہو تو ان اموات کی شرح کم ہوجاتی ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مذہبی عقیدہ خاندانی منصوبہ بندی میں رکاوٹ ہے لیکن یہ درست نہیں۔ دیگر مسلمان ملکوں میں فیملی پلاننگ کامیاب ہوئی ہے جیسے بنگلہ دیش اور ایران۔ حتی کہ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی آبادی بڑھنے کی رفتار ہم سے کم ہے۔ ایران اور بنگلہ دیش میں آبادی بڑھنے کی شرح کم ہونے کی ایک بڑی وجہ جدید مانع حمل طریقوں کا وسیع استعمال ہے۔ بنگلہ دیش میں 62 فیصد شادی شدہ لوگ (جن کی عمریں 15سے 49 تک ہوں) اور ایران میں80 فیصد مانع حمل طریقے اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے یہ شرح صرف 34فیصد تک محدود ہے۔ حکومت نے کئی بار بین الالقوامی اداروں کے ساتھ وعدے کیے کہ وہ مانع حمل طریقوں کو زیادہ لوگوں تک پہنچائے گی لیکن کبھی اپنے وعدہ پر عمل نہیں کیا۔ صوبائی حکومتیں ہر سال بجٹ میں فیملی پلاننگ کیلیے رقوم مختص کرتی ہیں لیکن بعد میں انہیں کسی اور مد میں خرچ کردیتی ہیں۔ آبادی پر قابو پانے کے معاملہ پر ہمارے ہاں سیاسی عزم و ارادہ کی کمی ہے۔ جب بنگلہ دیش بنا تو اسکی آبادی ہم سے زیادہ تھی۔ آج ہم سے پانچ کروڑ کم ہے۔ وہاں خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام کامیاب ہوا کیونکہ سیاسی عزم پختہ تھا۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم فیملی پلاننگ کے پروگرام کو مانیٹر کرنے کیلیے اسکے اجلاس کی ہر ماہ خود صدارت کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو متعلقہ وزیر بھی ایسا نہیں کرتے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کے لوگ خاندانی منصوبہ بندی کرنا نہیں چاہتے۔ خواندگی بڑھنے اور شہروں کے پھیلاو کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور بڑھا ہے کہ خاندان کا سائز چھوٹا ہونا چاہیے لیکن حکومت اس سلسلہ میں عوام کی مدد نہیں کررہی۔ ریسرچ موجود ہے کہ ہمارے ملک میں تیس فیصد ایسے شادی شدہ لوگ موجود ہیں جو مانع حمل طریقے اختیار کرنا چاہتے ہیں لیکن ان تک رسائی نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے ہر سال پچیس لاکھ شادی شدہ جوڑے غیر قانونی اسقاط حمل کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خاندانی منصوبہ بندی عام سرکاری ہسپتالوں جیسے تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال‘ ضلعی ہیڈ کوراٹر ہسپتال‘ دیہی مراکز صحت وغیرہ کا حصہ نہیں۔ اسکے لیے الگ مراکز بنے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ان مراکز سے لاعلم ہوتے ہیں۔ اگر ان مراکز کو سرکاری ہسپتالوں کے اندر بنایا جائے تو لوگوں کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کی مشاورت اور اس کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا آسان ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ علاج معالجہ کیلیے پرائیویٹ ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی کلینکس پر جاتے ہیں۔ اگر فیملی پلاننگ کے پروگرام کو ان ڈاکٹروں سے منسلک کردیا جائے تو بڑی تعداد میں لوگ ان طریقوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ شہروں میں تو زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کی تعداد کم کرچکے ہیں۔ لیکن بڑا مسئلہ دیہات اور ان علاقوں کا ہے جہاں قبائلی معاشرہ ہے جیسے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان۔ قبائلی معاشرت میں بڑے خاندان کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حکومت کو ان جگہوں پر خصوصی پروگرام شروع کرنے چاہئیں۔ دیہات میں اگر شادی شدہ جوڑوں کو مانع حمل طریقوں کی تعلیم دی جائے اور ان سہولتوں تک رسائی آسان بنادی جائے تو مثبت نتائج آ سکتے ہیں۔ ایسے شادی شدہ جوڑے جو پچاس برس کی عمر تک اپنی فیملی کو دو سے تین بچوں تک محدود کرلیں حکومت انہیں مالی انعام دے تاکہ خاندانی منصوبہ بندی کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔ بہت سے طریقے ہیں جن سے ہمارے ملک میں بھی فیملی پلاننگ کا پروگرام کامیاب بنایا جاسکتا ہے لیکن اصل بات حکمرانوں کے ارادہ کی ہے۔ جب تک وہ تہیّہ نہیں کریں گے کوئی بھی پروگرام کاغذوں سے آگے نہیں بڑھے گا۔