یہ اْن دنوں کی بات ہے جب ہَوا میری سہیلی تھی اور روح کے زرد رخساروں پر اپنے نرم ہاتھ رکھ کر اسمِ آگہی یاد کراتی۔۔ اَن دیکھی اَن کہی کے بھید بتاتی، کہیں خراماں خراماں چلتی ،بل کھاتی تو کبھی بے وجہ ہی ٹھہر جاتی۔۔ عمر کے ماہ و سال گزرتے گئے لیکن یہ رشتہ نہ تو مدھم ہوا اور نہ ہی برہم۔۔ گویا زرد پھولوں کی بارش سے لے کر گلابی روشنیوں کی بشارت تک کا سارا سفر مَیں نے اسی کی سادہ و پہلو داد رفاقت میں طے کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طویل سفر میں کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوا جیسے دل لمبی پرواز سے تھکی ہاری چڑیا کے نازک دل کی مانند لرزاں لرزاں دھڑک رہا ہے، ان تھک مشقت سے پیشانی پر پْھوٹتے پسینے کے نادیدہ قطرے انگارے سے بن گئے ہیں، صحرائوں سے پہاڑوں تک اْنچی نیچی اْڑانیں بھرتے بہادر پَروں سے طاقتِ پرواز روٹھتی جا رہی ہے،آسمانوں کی طرف سے سنائی دینے والا وہ اِذنِ سفر کا نقارہ بھی گْنگ سا ہو گیا ہے اور دْور افق پر ناامیدی کا سْرخ آندھی جیسا غبار ٹھہر گیا ہے۔۔اس نڈھال کرتی ہوئی کیفیت کے باوجود مَیں جوش و استدلال کے داخلی مکالموں سے اْلجھتی سْلجھتی جستجوئے وصالِ ذات کے اک خوش خیال ساحلِ نیاز پر آن بیٹھی، چند لمحوں کو سہی مگر ساری عمر گزار دینے کی خواہش سے لبریز۔ کاسنی گیتوں سے لبریز ایسے ہی موسمِ خوش خیال میں سْرخروئی کا نشّہ وارد ہوتا تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے آج عشق نے پتھر سے نمو مانگ لی ، اَنا کے دریا کا بند ٹوٹ کر اْداس وادی کے تمام دکھ اپنے ساتھ بہا لے گیا ،فلک بوس غرورپل بھر میں زمین ریز ہو گیا، بادلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے آبشار پھوٹ پڑی، نیم شب کے بعد بْوند بْوند اْترتی شبنم نے بھڑکتے ہوئے الاؤ کو مسخر کر لیا، ایک جگ مگ کرتا چراغ تیرہ و تار رات میں روشنی بکھیر گیا، گلابی چاند کا چہرہشب کے محبوس جسموں کو منّور کر گیا،بہت دیر سے قفس میں پھڑپھڑاتا پنچھی اچانک پْرسکون ہو گیا، شاخ پر لگی ایک کلی کْھل کر مسکرانے کی ابدی جزا پا گئی اور ہجر کا گہرا زخم شفیق پوروں کی جراحی سے شفا یاب ہو گیا، شاید یہ کوئی عالمِ جنوں تھا یا لمحۂ اِدراک.. جو بھی تھا بس میلے میں اکیلا کر دیتا۔ میلے میں اکیلا تو عشق بھی کر دیتا ہے۔ یہ اہلِ عشق ہیں جن کے شکستہ سینوں کے اندر ہمہ وقت ایک صفِ ماتم بچھی رہتی ہے،جہاں آرزوئیں آنکھوں میں آنسو لیے، بال بکھرائے، سینہ کوبی پرمجبور بَین کرتی نظر آتی ہیں.۔ پھر یہی مصلوب آزردگی جب اپنی گہری چْپ توڑدے تو مصرع مصرع شاعری بن جاتی ہے.. مکتبِ عشق کے صوفیوں کو خبر ہے کہ جو عشق میں دیانتدار نہیں وہ شاعری میں دیانتدار نہیں۔ شاعری زندگی میرا یقین ہے۔۔ کئی بار جی چاہتا کہ یقین کی اس پوٹلی کو ہاتھ میں لے کر تنہائی کے جنگل میں جا نکلیں جہاں وحشی خوشبوؤں کا راج ہو۔۔ ہتھیلیوں کی تقدیر بدلتی خوشبو۔۔آنکھوں کی روشنی بکھیرتی خوشبو۔۔ سینوں کی محصور کرتی خوشبو۔۔ ہونٹوں کی شعر کہتی خوشبو۔۔یہی خوشبو ہی تو ہے جو محسوسات کو پتھر کر دینے والی رزق کی دوڑ میں مگن پیروں میں حرف و معنی کی جھانجھریں ڈال دیتی ہے جن سے پْھوٹنے والی چَھن چَھن وجود کو اس کے ہونے کا احساس دلاتی اور روح مسکرا کر’ عشق عشق ‘ پکار اٹھتی ہے۔ یہ جو ہماری روح ہے نا!یہ بھی چاندی کے کٹورے کی مانند ہوتی ہے جس میں ذات سے باہر کے تعّصبات کی ذرا سی بھی گرد اْتر جائے تو وجدان کا سپید میٹھا دودھ گدلا اور بے لذّت ہو جاتا ہے۔۔ بے لذّ ت تو زندگی بھی ہو جاتی ہے جب کچھ استحصالی طبقے انسانوں کے لیے انواع و اقسام کی زنجیروں کا انتظام کرنے میں منہمک رہتے ہیں اور یوں معاشرتی فضا آزادی کی قدرتی تنظیم سے محروم ہوتے چلی جاتی ہے۔ فضا تو وہ بھی کیسی دل میں اتر جانے والی ہوتی ہے جب سَردیوں کی کسی گہری اْداس شب میں سنہرے الاؤ کے گرد سر جھکائے کوئی دعا جیسی صحرائی آواز، درد میں ڈوبی پْراسرار سچائی کا اہتمام کر رہی ہوتی ہے۔۔ گلابی روشنیوں کی بشارت کے اس وقتِ خاص میں آسمان پر اْڑتی کونجیں گواہی دیتی ہیں کہ انسان کی فطری سرکشی اس کے بدن سے ہجرت کر رہی ہے.. انحراف اثبات میں بدل گئے ہیں..سرِتسلیم خم ہو چکے ہیں اور سجدے نیکیوں کی صورت جبین نیاز پر اتر رہے ہیں۔ تب حضرت خواجہ فریدؒ کی کافی حرف حرف ثواب بنتی ہے، میڈا عشق وی تْوں میڈا یاروی تْوں میڈا دین وی تْوں ایمان وی تْوں میڈا جسم وی تْوں میڈی روح وی تْوں میڈا قلب وی تْوں جِندجان وی تْوں میڈا ذکروی تْوں میڈا فکروی تْوں میڈا ذوق وی توں وجدان وی تْوں میڈی وحشت، جوش، جنوں وی تْوں میڈا گریہ، آہ وفغان وی تْوں جے یار فرید قبول کرے سرکار وی تْوں سلطان وی تْوں