اگر صبح صبح لطیفہ سننے کا من ہے تو لیجئے سنئے! میڈیا رپورٹس کے مطابق پی پی پی کے الیکشن سیل کا کہنا ہے کہ وہ امیدوار(یعنی آصف علی زرداری) جو جمہوری جدوجہد کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں وہ ایسے حربوں سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ہنسی کے قابل بات یہاں یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری اگر کسی چیز کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں تو وہ ہے صرف کرپشن!اس کے باوجود بھی وہ ہر بار بچ نکلتے ہیں۔تازہ ترین کیس ان کے اور ان کی باجی فریال کے خلاف ایف آئی اے والوں نے کھولا تھا جس میں دونوں بہن بھائیوں پہ منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا ۔ تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے میں تحقیقات انتخابات کے انعقاد تک روک دی گئی ہیں۔اب اگر انتخابات میں پی پی پی کو فتح حاصل ہوئی اور زرداری صاحب ایک بار پھر قصر صدارت جا پہنچے تو انہیں کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گا۔ پچھلی بار کی طرح پھر سے انہیں صدارتی استثنیٰ حاصل ہو جائے گا اور پہلے دن سے ہی وہ سرکاری وسائل کو لوٹنا شروع کر دیں گے۔ ذرا سوچئے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ مطلب اس کا یہ ہے کہ تین وکلاء کی بدولت پاکستان کبھی بھی زرداری سے چھٹکارا نہیں پا سکے گا۔ اعتزاز احسن،فاروق ایچ نائیک اور لطیف کھوسہ ہمیشہ انہیں جیل سے بچا کر لے جانے میں کامیاب ہوتے رہیں گے۔ آخری بار زرداری صاحب سن دو ہزار آٹھ میں جیل سے بچے تھے اور وہ جنرل مشرف کی مہربانی تھی۔ اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کے تحت انہوں نے اپنے اٹارنی جنرل جسٹس(ر) ملک قیوم (قارئین کو موصوف کا نام یاد ہی ہوگا)کے ذریعے سوئس حکومت کو کہا تھا کہ زرداری کے ساٹھ ملین کے اثاثے غیر منجمد کر دئیے جائیں جو کہ کرپشن کے الزامات کے تحت انیس سو ستانوے میں منجمد کر دئیے گئے تھے۔جسٹس قیوم نے سوئس حکومت کو بتایا تھا کہ زرداری یا بے نظیر بھٹو دونوں میں سے کسی نے بھی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اور ان پر لگنے والے الزامات کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما تھے۔ نتیجتاً سوئس حکومت نے زرداری صاحب کے خلاف منی لانڈرنگ کا ایک کیس ختم کر دیا۔ سوئس پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کے ثبوت 

کے طور پرایسے شواہد پیش کرنا ضروری ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پیسہ کسی جرم کا نتیجہ ہے اور ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ پیسہ پاکستان میں کسی جرم کے نتیجے میں حاصل کیا گیا ہے۔سن دو ہزار سات میں جب ایک سوئس جج نے زرداری صاحب کو حاضری کا پروانہ بھیجا تھا تو زرداری صاحب نے دماغی بیماری کا جھوٹا بہانہ گڑھ کر حاضری سے معذوری ظاہرکی تھی۔لندن سے شائع ہونے والے جریدے فنانشل ٹائمز کے مطابق نیویاک کے دو ماہرین نفسیات نے تشخیص کی تھی کہ زرداری صاحب شدید ڈپریشن، ڈیمنشیا اور گیارہ سال تک کرپشن کے الزامات میں جیل میں رہنے کی وجہ سے پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ زرداری صاحب کو خودکشی کے خیالات آتے ہیں۔تاہم اگلے ہی سال جب بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پارٹی کی قیادت کرنے اور ملکی صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے لیے دبئی سے وطن واپس آئے تو ان کی صحت قابلِ رشک نظر آ رہی تھی۔ان کے دانتوں کی چمک بھی بدستور قائم تھی۔ستمبر دوہزار آٹھ میں دو بالکل باجواز سوالوں کے جوابات زرداری صاحب سے حاصل کرنے چاہئے تھے۔ایک تو یہ کہ اگر ایک سال پہلے تک واقعی وہ دو ماہرین نفسیات کے زیر علاج تھے تو اس وقت پھر ان کی دماغی صحت کیسی ہے اور یہ بھی کہ کیا ان کا علاج بدستور جاری ہے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر وہ ساٹھ ملین ڈالر انہی کے تھے تو پاکستان میں رہتے ہوئے انہوں نے وہ پیسہ کیسے کمایا؟ یہ دو سوال زرداری صاحب سے کسی نے نہیں پوچھے۔ نہ میڈیا نے اور نہ ہی کسی اور نے!اس کے بجائے بے نظیر بھٹو اور زرداری کو ان کی کرپشن کے انعام میں مشرف کی جانب سے این آر او کا تحفہ ملا۔ جنرل مشرف کواحمقانہ امید یہ تھی کہ اگر دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے نتیجے میں یہ میاں بیوی برسراقتدار آ گئے توانہیں عہدئہ صدارت پہ متمکن رہنے دیں گے۔ ۵ اکتوبر سن دو ہزار سات کو بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے لئے متعارف کئے گئے اس بدنام زمانہ این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں مشرف سے لے کر رحمان ملک اور چودھری شجاعت و ایم کیو ایم سے لے کر نون لیگ تک سبھی شامل تھے۔اس این آر او کے پیچھے امریکیوں کا ہاتھ تھا لیکن امریکی خود بھی عہدئہ صدارت کے لئے زرداری صاحب کی اہلیت کے بارے میں شک میں مبتلا تھے۔کانگریس میں انٹیلی جینس کمیٹی کے ری پبلکن رکن پیٹ ہوک سٹرا نے نیوزویک کو بتایا تھا کہ عموماً اس قسم کا شخص امریکہ کو مرکزی حیثیت میں پسند نہیں ہوتا ہے۔وہ حیران تھے کہ اگر زرداری صاحب کو خود کشی کے خیالات آتے ہیں تو ان کی تشخیص اس قدر خفیہ کیوں رکھی گئی۔ پیٹ ہوک سٹرا آجکل نیدر لینڈ میں امریکی سفیر ہیں۔ دماغی بیماری ایک بڑا ہی سنگین مسئلہ ہے۔اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ دماغی بیماری میں مبتلا شخص اپنے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد اپنے افرادِ خاندان کی زندگیاں بھی تباہ کرسکتا ہے۔ذرا سوچئے کہ اگر ایک دماغی عارضے میں مبتلا شخص کو کسی ملک کی باگ ڈور تھما دی جائے تو کیا ہوگا؟ایسا فرد چاہے وہ مرد ہو یا عورت اپنی جنونی حرکتوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں برباد کر سکتا ہے اور کسی میں اتنی ہمت بھی نہیں ہو گی کہ اسے روک سکے۔ دماغی عوارض کی کئی ایک اقسام ہیں۔ انشقاقِ ذہنی سے لے کر معمولی نوعیت کے ڈپریشن تک سبھی اسی زمرے میں آتے ہیں لیکن یاد رکھیں کہ جب تشخیص ڈیمنشیا اور سائیکوسز یا شدید خوف (جس کی بعض علامات زرداری صاحب میں موجود بتائی گئی تھیں) کی ہو تو پھر معاملہ سنگین ہوتا ہے۔ ایسے 

مریض کو پھر نارمل نہیں سمجھا جا سکتا ۔ سیاستدانوں کی کرپشن اور دیگر غلط کاریوں پہ معافی کی مہر ثبت کرنے والے اسی این آر او کی مہربانی سے ہو سکتا ہے زرداری صاحب ایک بار پھر اقتدار میں آ جائیں۔جب تک عدلیہ کرپشن کے لئے مکمل عدم برداشت کا اظہار نہیں کرتی ، پاکستان کے عوام اسی طرح حکمرانوں کا ریاستی وسائل کا لوٹنا ملاحظہ کرتے چلے جائیں گے۔اگر نواز شریف اور ان کی بیٹی کو جیل بھیجا جا سکتا ہے تو زرداری اور ان کی بہن کو کیوں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت مل رہی ہے؟ یہ لوگ انتخابات جیت کر تباہی مچائیں گے۔ چند سال پہلے جب پی پی پی کی حکومت تھی تو ہم نے سنا تھا کہ اسلام آباد میں لگژری اپارٹمنٹس کی ایک بلڈنگ میں اپارٹمنٹس کی مالکان کو حوالگی کی راہ میں ایک رکاوٹ آگئی ہے اور وہ رکاوٹ یہ تھی کہ گیس کنکشن اس بلڈنگ کو نہیں مل رہا تھا۔ اس بلڈنگ کو تعمیر کرنے والے مہینوں تک گیس کنکشن کے حصول کے جائز طریقے آزماتے رہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اس دوران اپارٹمنٹس کے مالکان بھی بے چین ہوتے جا رہے تھے کیونکہ انہیں اپنے اپارٹمنٹس کا قبضہ چاہئے تھا ۔ اس قبضے کے حصول میں پہلے ہی سے سالوں سے تاخیر ہو رہی تھی۔پھر کسی مہاشے نے بلڈرز سے ملاقات کی اور اشارہ کیا کہ انہیں اس سلسلے میں صدر مملکت کی بہن سے ملاقات کرنی چاہئے کیونکہ صدر صاحب کے رئیل اسٹیٹ کے معاملات وہی دیکھتی ہیں اور گیس کنکشن کے حصول میں مدد کر سکتی ہیں۔ گیس کنکشن لگوانے کے معاوضے کے طور پر ان بلڈرز کو اسی بلڈنگ میں ایک پینٹ ہائوس صدر صاحب کی بہن کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کرنا پڑا تھا۔ہمیں یہ علم نہیں کہ آیا یہ ایک سچی بات ہے یا محض کوئی کہانی گھڑی گئی تھی لیکن ایک بات تو حقیقت ہے کہ اس بلڈنگ کو گیس کنکشن فراہم کر دیا گیا تھا ۔ ہمیں یہ البتہ کبھی معلوم نہیں ہو سکے گا کہ کیا واقعی اس کے بدلے ان بلڈرز کو اسی بلڈنگ میں اپنے ایک بیش قیمت پینٹ ہائوس سے ہاتھ دھونے پڑے ؟